ماسکو: روس کی ثالثی میں آذربائیجان اور آرمینیا نے متنازع علاقے ناگورنو کاراباخ میں دو ہفتوں سے جاری خونی جھڑپوں کے بعد بالآخر عارضی جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔ ماسکو میں ہونے والی ایک اہم ملاقات کے بعد تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ عارضی جنگ بندی کا مقصد قیدیوں کا تبادلہ اور ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو بازیاب کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بعد میں جنگ بندی کی مخصوص تفصیلات پر اتفاق کیا جائے گا۔
روسی وزیر خارجہ سیرگی لاوروف کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات 10 گھنٹے تک جاری رہے، جس کے بعد لاوروف نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ معاہدے میں یہ شرط بھی شامل کی گئی ہے کہ جنگ بندی تنازع کے حل کے لیے بات چیت کی راہ ہموار کرے گی۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق اگر متحارب حریفوں کے درمیان جنگ بندی ہوتی ہے تو یہ روس کے لیے ایک بڑی سفارتی فتح ہو گی کیوں کہ ماسکو نےآرمینیا کے ساتھ سلامتی کا معاہدہ کیا ہوا ہے لیکن اس کے آذربائیجان کے ساتھ بھی انتہائی دوستانہ تعلقات ہیں۔ آذربائیجان اور آرمینیائی فوجوں کے مابین تازہ ترین لڑائی کا آغاز 27 ستمبر کو ہوا تھا اور ناگورنو کاراباخ پر جاری اس جنگ میں دونوں جانب سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے مابین یہ بات چیت روسی صدر ولاد یمیر پوتن کی دعوت پر ہوئی جنہوں نے آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف اور آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پاشینیان کے ساتھ ٹیلی فون کال پر انہیں وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونے والے ان مذاکرات میں شرکت پر قائل کیا۔
آرمینیا نے کہا ہے کہ وہ اب جنگ بندی کے لیے تیار ہے جبکہ اس سے قبل آذربائیجان نے آرمینین فوج کی ناگورنو کاراباخ سے مکمل انخلا کو ممکنہ جنگ بندی سے مشروط کیا تھا۔ روس نے امریکہ اور فرانس کے ساتھ مل کر 1992 سے قائم منسک گروپ (Minsk Group) کے شریک صدر کی حیثیت سے ناگورنو کاراباخ پر امن بات چیت کو آگے بڑھایا ہے۔
جنگ بندی معاہدے سے کچھ گھنٹے پہلے قوم سے خطاب کرتے ہوئے آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف نے اپنے ملک کے اس حصے کو بزورِ طاقت حاصل کرنے کے حق پر زور دیا کیونکہ ان کے بقول بین الاقوامی کوششوں کے باوجود تین دہائیوں سے یہ مسٔلہ جوں کا توں موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ثالثین اور کچھ بین الاقوامی تنظیموں کے رہنماؤں نے بیانات دیے ہیں کہ اس تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں۔ میں اس سے متفق نہیں اور اب تنازع کو فوجی ذرائع سے حل کیا جا رہا ہے اور سیاسی ذرائع اس کے بعد سامنے آئیں گے۔
واضح رہے کہ موجودہ کشیدگی میں آذربائیجان کے اتحادی ترکی نے سیاسی حمایت کے علاوہ باکو کو جدید ترین اسلحہ مہیا کیا ہے، جن میں ڈرون اور راکٹ سسٹم شامل ہیں۔ جبکہ آرمینیا کو فرانس اور دیگر یورپی ممالک کی جانب سے عسکری و سفارتی مدد فراہم کی گئی۔ تاہم اب دونوں ہی ممالک مزید لڑائی کے متحمل دکھائی نہیں دیتے۔