شورش نے کہا ، ”حکومت کچھ نہیں کرتی وہ ہنس پڑی اور بولی ، ”آپ صحافی ہو کر انجان بنتے ہیں. حکومت کے لیے اور تھوڑے کام ہیں ؟؟ یہ اخلاقی مسئلہ ہے اور اس کا تعلق پورے معاشرے سے ہے.“
شورش نے کہا ، ”حکومت کے بھی تو کچھ فرائض ہوتے ہیںجی ہاں کیوں نہیں؟ وہ اپنے فرائض کو بڑی خوبی سے پُورا کرتی ہے. مثلاً قلعہ کی سیڑھیوں پر لیاقت علی خان نے سلامی لی تھی تو سیڑھیوں پر جو قالین بچھائے گئے تھے وہ ہمارے مکانوں سے ہی گئے تھے. جب کبھی قلعہ سے باہر یا قلعہ کے اندر کوئی سرکاری تقریب ہوتی ہے تو قالین ہمارے ہاں سے ہی جاتے ہیں.
شورش بولے ، ”اوہو یہ تو ایک خبر ہے“
طوائف بولی ، ”خبر کیسی؟ راعی کا رعایا پر حق ہوتا ہے، ہمیں تو سرکاری دنگل کے لیے بھی ٹکٹ خریدنے پڑتے ہیں“
شورش سادگی سے بولے ، “آپ لوگ انکار کیوں نہیں کر دیتے؟؟“
"خوب ! آپ بھی ہوا میں گِرہ لگا رہے ہیں. ہمیں تو بعض تھانیداروں کے مہمانوں کے لیے بستر بھی بھیجنے پڑتے ہیں ایسا نہ کریں تو ہمارا کاروبار ایک دن میں ٹھپ ہو جائے. ہم لوگ عیبوں کی گٹھڑیاں ہیں جو شخص بھی یہاں آتا ہے وہ اخلاقی چور ہوتا ہے. پولیس سے جھگڑا مول لے کر بھوکوں مرنے والی بات ہے بلکہ قید ہونے والی بات ہے"
یہ طوائف زادی جس کی غیر معمولی متاثر کن گفتگو پڑھ کر دِل رنجیدہ ہو گیا جس کی قسمت اُسے اور اُس کے پُورے خاندان کو تقسیمِ ہند کے بعد کوٹھے پر لے آئی۔ والد پٹیالہ کے بڑے زمیندار تھے جن کے پاس تین سو بیگھے بارانی اور تین سو پینسٹھ بیگھے نہری زمین تھی.
ماں نے کیمپ میں دَم توڑا۔ اور والد کی عمر اَسی برس ہو چکی تھی۔ اُن پر یہ رَحم ہوا کہ بیچارے اُس وقت اندھے ہو گئے جب یہ کہانی جنم لے رہی تھی اور یوں اپنی بچیوں کی حالت کو دیکھنے سے معذور رہے.
خوب بولی کہ پاکستان تو خدا لایا تھا ، اِس بازار میں پیٹ لے آیا. یہاں لانے کا انتظام تو لیاقت علی خان کی بدولت اسپیشل ٹرین کے ذریعے ہوا تھا.
شورش نے طوائف زادی سے آخری سوال کیا کہ ، ”اگر تمہیں ملک کا وزیراعظم بنا دیا جائے تو تم کیا کرو گی؟“
وہ مسکرائی اور کہا ، ”میں سب سے پہلے تمام نشے بند کر ڈالوں گی "شراب ، چرس ، بھنگ ، افیون ، چانڈو", اس لیے نہیں کے شرعاً حرام ہے. اِس لیے کہ اُن کے استعمال سے جوان ، جوان نہیں رہتا“
شورش اور اُن کی ٹیم بے اختیار ہنسی.
طوائف زادی بولی معاف کیجیے گا ، ”ہر قوم کی عزت اُس کے جوان ہوتے ہیں. میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ سو میں سے ستّر ، چہروں سے تو جوان ہیں لیکن اُن کی ہمتیں بُوڑھی ہو چکی ہیں.“
شورش کاشمیری کی کتاب ” اُس بازار میں " سے کشید