مانچسٹر: تقریباً 150 برس سے سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ زیبرا کے جسم پر سیاہ لکیریں کیوں موجود ہیں۔ کیا یہ سیاہ لکیریں اسے جنگل میں کسی خطرے خصوصاً شکاری جانور کے حملوں سے بچاتی ہیں۔ یا پھر اس کے جسم کی ہدت کو کم رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
ان سوالات کے تسلی بخش جواب تو سائنسدان اب تک تلاش نہ کرپائے، لیکن انہوں نے اب ایک نئی تھیوری بنا دی ہے کہ زیبرا کا جسم سفید نہیں بلکہ سیاہ ہوتا ہے۔ برطانوی ماہرین اور زولوجی کے شعبے کے ایکسپرٹس نے یہ منطق پیش کی ہے۔ اور ان کا دعویٰ ہے کہ زیبرا کے جسم پر موجود لکیریں سیاہ نہیں بلکہ سفید ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ زیبرا کے جسم پرسیاہ رنگ کی لکیریں ہوتی ہیں۔ زمانہ قدیم سے یہ مشہور ہے کہ زیبرا کا جسم سفید رنگ کا ہوتا ہے جبکہ اس پر موجود لکیروں کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اس لیے کہ اس کے پیٹ کے خالی حصے کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ برطانوی جریدے کے مطابق زمانے کی ترقی کے ساتھ ماہرین نے اس خیال کو غلط ثابت کیا ہے۔
ماہرین کے نزدیک زیبرے کا اصلی رنگ سیاہ ہوتا ہے جبکہ سفید رنگ محض سیاہ کے اوپر لکیروں کی شکل میں ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق زیبرا کی جلد کے خلیات میلانن کے ذریعے سیاہ رنگ پیدا کرتے ہیں جبکہ سفید جگہوں پر میلانن نہیں ہوتا ہے یوں زیبرا دھاری دار شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
زیبرا کے جسم پر سفید رنگ کی پٹیوں کے نمونے مختلف رنگتوں کے ذریعے تشکیل پاتے ہیں۔ زیبرے پر موجود سفید لکیریں اسے شیر اور دیگر شکاری جانوروں سے بچنے میں مدد فراہم کرتی ہیں، شکاری جانور کی نظر اس کی لکیروں میں الجھ جاتی ہے خصوصاً جب یہ کسی گروہ کی شکل میں ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس کا جسم مکھیوں مچھروں سے بچاؤ اور جسمانی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی خاص کام کرتا ہے۔ زیبرا کی لمبائی عام طور پر 2.4 سے 2.7 میٹر ہوتی ہے۔ جبکہ کچھ نسلوں کا وزن خاص طور پر زرد زیبرے کا وزن 400 کلوگرام تک ہوتا ہے۔