ملک بھر میں آج عید الفطر مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ والدین، بہن بھائیوں، عزیز و عقارب اور دوستوں کے ساتھ عید کی خوشیاں منانا کسی نعمت سے کم نہیں۔ لیکن آج ہمارے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، جو عید کے پُر مسرت موقع پر بھی ان میں سے کسی نہ کسی ایک نعمت سے محروم ہیں۔ سانحہ ساہیوال کا دلخراش واقعہ کون بھول سکتا ہے کہ جب معوصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو ناحق قتل کیا گیا۔
پھول جیسے بچے عمیر، منیبہ اور ہادیہ آج اپنے والدین کے بغیر عید منا رہے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا عمیر ہے، جس کی عمر 12 برس ہے۔ جبکہ بہنیں اس سے چھوٹی ہیں۔ قسمت کی ستم ظریفی ہے کہ ان معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ جبکہ اسی واقعے میں ذیشان نامی نوجوان کو بھی مارا گیا، جس کی والدہ آج اپنے بیٹے کے بغیر عید منا رہی ہوں گی۔ یا یہ یوں کہا جائے کہ کیسی عید منا رہی ہوں گی۔
واضح رہے کہ 19 جنوری کو انسانیت سوز واقعے کے کچھ روز بعد حکومت کو ہوش آیا تھا اور وزیر اعظم نے متاثرین کو انصاف کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس کے بعد جے آئی ٹی بنائی گئی، لیکن مقتول خلیل اور اس کی اہلیہ اور مقتول ذیشان کے اہل خانہ نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا اور جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا۔ آج تک یہ جوڈیشل کمیشن قائم نہیں ہو سکا ہے، جس کے باعث واقعے کے اصل ذمہ داران بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے متاثرہ اہل خانہ کیلئے امداد کا اعلان بھی کیا تھا، وہ بھی ابھی تک متاثرین کو نہیں مل سکی۔ جبکہ بچوں کی پڑھائی اور صحت کے اخراجات برداشت کرنے کیلئے ایک بینک اکاؤنٹ کھولنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن اس عمل میں ’’قانونی رکاوٹیں‘‘ حائل ہوگئی ہیں۔
’’واضح رہے‘‘ کی جانب سے پورے پاکستان کو عید کی مبارک باد۔ لیکن آپ نے آج کے دن کیا ایک بار بھی ان بچوں (عمیر، منیبہ، ہادیہ) کے بارے میں سوچا کہ وہ عید کیسے منا رہے ہوں گے؟