ووٹ ایک قومی امانت ہے جس کے درست استعمال سے ہی جمہوری نظام کو فروغ ملتا ہے اورقوموں کی ترقی،استحکام اور خوشحالی کو ممکن بنایا جاتا ہے ۔جمہوری نظام میں رائے دہندگان کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے عوام ہی طاقت کا اصل سرچشمہ ہیں اور عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ووٹ جمہوری نظام کی مضبوطی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے اورجن معاشروں میں رائے عامہ کو اہمیت دی جاتی ہے وہی معاشرے ترقی کرتے ہیں لہٰذا عوام کو قومی جذبہ سے سرشار ہو کر ووٹ ڈالنے کا فرےضہ سر انجام دےنا چاہئے۔ تعلیم یافتہ معاشروں میں عوام کو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ان کا ووٹ ملک کے لیے کتنا اہم ہے، ان کی ذرا سی غفلت کتنے بھیانک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ بلاشبہ بہترین طرزِ حکمرانی اور جمہوریت ہی عوام کے تمام مسائل کا حل ہے۔ سسٹم کو گالیاں دینے، اسے کوسنے کے بجائے سسٹم کو موثر اور فعال بنائیں، جمہوری نظام میں جو خامیاں ہیں انہیں دور کرنے کے لیے ہر پاکستانی اپنا کردار ادا کرے ،استعمال ہونے کے بجائے اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں۔ یقین کیجیے حالات بدلیں گے، بس تھوڑا خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
پاکستانی لو گ نادانی، لا علمی اورلاشعور ی کی وجہ سے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کرتے اور نہ ہی آج تک انہےں اپنے ووٹ کی قدرو قیمت کا انداز ہ ہوا ہے ۔ووٹ در اصل جمہوری نظام میں انسان کی وہ طاقت ہوتی ہے جس سے وہ اپنے مستقبل کی پلاننگ کرتا ہے لیکن آج بھی پاکستانی اپنا ووٹ دوسروں کے کہنے پر ایسے لوگوں کو دے دیتے ہیں جو اس قابل نہیں ہوتے جنہوں نے عوام کو سوائے غربت جہالت اور غلامی کے کچھ نہیں دےا، ےہی وجہ ہے کہ آج قائد اعظم محمد علی جناح اورشاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا پاکستان مسائلستان بن گےا ہے ۔ عام طور پر لوگ ووٹ کی طاقت واہمیت اور اس کی شرعی حیثیت سے لاعلمی کی بناءپر اس کو ایسے افراد کے حق میں استعمال کرڈالتے ہیں جو کسی بھی طرح اس کے اہل نہیں ہوتے ہیں ، جس کا خمیازہ لوگ اگلے پانچ سالوں تک اسی دنیا میں بھگتتے رہتے ہیں اور آخرت میں بھی جس کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ووٹ کی طاقت و اہمیت اور اس کی دینی وشرعی حیثیت کو جان کر اس کا صحیح استعمال کریں۔
قرآن نے ضرورت کے وقت گواہی کوچھپانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے گناہ عظیم کہا ہے۔سورہ بقرہ میں اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ ”ضرورت کے وقت ووٹ نہ دینا شہادت کے چھپانے کے مرادف ہوگااور آدمی گنہگار ہوگا“۔اللہ تعالی سورہ النساءکی آیت 135 میں فرماتے ہیں”اے ایمان والو انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو خواہ اس میں تمہارا یا تمہارے ماں باپ یا رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو “اسی طرح سورہ ا لحج آیت 20 میں اللہ فرماتے ہیں ” تو دور رہو بتوں کی گندگی سے اور بچوجھوٹی بات سے“۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ” قیامت کے دن جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ بھی نہ پائیں گے کہ اس کے لیے جہنم واجب ہو جائے گی“۔یعنی ووٹ جسے ہم چھوٹا سا فعل گردانتے ہیں ہمیں جہنم کا ایندھن بنا سکتا ہے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایاکہ” جس نے ایسی گواہی دی جس نے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہا جائے تو اس نے اپنے اوپر جہنم کو واجب کر لیا“ یہ حدیث ایک مومن مسلمان کےرو رنگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔
قرآن پاک سے واضح ہوتا ہے کہ ووٹ کی حیثیت شہادت کی ہے، یعنی ووٹر اپنے ووٹ کے ذریعہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ فلاں منصب کے لیے درکار ساری صلاحیتیں فلاں آدمی کے اندر موجود ہیں۔ وہ آدمی امانت داری اور دیانت داری کے ساتھ اس فریضہ کوانجام دے سکتاہے، اس کے اندر قوم و ملت کا دردہے۔ ایسے امیدوار کوووٹ دینا سچی گواہی ہے۔قرآ ن نے سچی گواہی دینے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے۔سورہ معارج میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںکہ”اورجواپنی گواہیوں کوٹھیک ٹھیک اداکرتے ہیںاورجو فرض نمازوں کی پابندی کرتے ہیں،یہی لوگ بہشتوں میں عزت سے داخل ہوں گے“۔لہٰذا کسی نا اہل ،ملک و ملت کا غدار ،مجرم پیشہ بلکہ پولس نامزد یا نامور مجرم اور خود غرض وضمیرفروش نیز مسلم دشمنی میں مشہور و معروف ،فتنہ پھیلانے اورفساد کرنے والے شخص کو ووٹ دینا جھوٹی گواہی ہے،جو ناجائز اورحرام ہے۔ قرآن وسنت میں جھوٹی گواہی کی سخت ممانعت آئی ہے۔ باصلاحیت ، امانت دار اور قوم وملت کے ہمدرد کو ووٹ دینا ضروری ہے، ورنہ امانت میں خیانت ہوگی۔ ووٹ کی گواہی کے نتیجے میں جو بدکار انسان پانچ سال کے لیے قوم پر مسلط ہوگا وہ اس عہدے سے غیر شرعی مفاد حاصل کرے گا زمین پر فساد برپا کرے گا تو اس کا نتیجہ زمین میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ گواہان کو بھی بھگتنا پڑے گا اور یوم آخرت بھی انجام ہمارا منتظر ہوگا اور یہ انسان جتنا شر پھیلائے گا جو غبن کرے گا جس ناانصافی کو پروان چڑھائے گا تو اس کا گناہ اس کے ساتھ ساتھ ووٹ دینے والے کے نامہ اعمال میں بھی درج ہوتا رہے گا اور روز آخرت اللہ کو حساب دینا ہوگا۔
پاکستان کے تمام حکمرانوںکی ساری کامیابیاں اور کامرانیاں صرف اپنی ذات اور اپنی پارٹی تک محدود ہو کر رہ گئی ہےں کیونکہ یہاں چو ہدراہٹ، ڈیرہ داری اور سرداری نظام موجود ہے جن کی نظر میں باقی سارے کمی اور یہی وڈیرے سردار گزشتہ 76 سال سے غرےبوں پرحکومت کر رہے ہیں۔ یہ سیاستدان قوم کے بچوں کا مستقبل لکھتے ہیں یہ کرپشن اور ناانصافی جیسے کئی پہاڑ اس قوم پر گراتے ہیں اور پاکستانی قوم ظلم بر داشت کرتی ہے لیکن زبان نہیں کھولتی اس لیے آپ کو جگہ جگہ مظلومیت کی بے تہاشہ کہانیاں نظر آئیں گی، آپ کو نظر آئے گا یہاں غریب دو وقت کا کھانا عزت اور ایمانداری سے نہیں کھا سکتا پینے کے لیے صاف پانی نہیں رہنے کےلئے چھت نہیں ۔یقین کیجئے ہمارے ہاں لاکھوں خاندان آج بھی ایسے موجود ہیں جو دوسروں کے اترے ہوئے کپڑے اور جوتے سالہ سال استعمال کرتے ہیں جو سارا دن محنت کے باوجود شام کو پیازاور چٹنی کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں جنہیں گوشت صرف عید پر نصیب ہوتا ہے۔ جن کے خواب آنکھوں میں مر جاتے ہیں جن کے بچے ہاتھوں میں ڈگریاں لیے بے روزگار پھرتے ہیں جہاں مائیں بھوک سے تنگ آکر اپنے بچوں کو زہر دے دیتی ہیں جن کے بچے پڑھائی کے دنوں میں جوتے پالش کرتے ہیں جن کے مریض سالوں سال بستروں پر پڑے ہیں کیونکہ ہم لوگ ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔
آج ملک میں بے ایمانوں کو عہدے ملتے ہیں، آج ڈاکے ،قتل اور فراڈ معمول بن گئے ہیں، آج سڑکیں کھنڈر اور قبرستانوں پر مارکیٹیں بن رہی ہیں، آج بے گناہوں کو سزائیں مل رہی ہیں، آج اربوں لو ٹنے والوں کو سیکورٹی مل رہی ہے، بھوک سے بلکتے بچوں کو روٹی کھلانے کی خاطر چوری کرنے والے کے گھر پولیس گھس جاتی ہے، آج غریبوں کی سسکیاں ایوانوں میں سنائی نہیں دیتی آج علاج سے لے کر انصاف تک سارے ادارے کرپشن اور سیاست کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں کیونکہ لوگ ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کرتے ۔اب عوام کو رائے دہی کے وقت کسی دباﺅ، رنگ نسل، برادری کی بنیاد کے بجائے قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نمائندے چننا ہوں گے۔ ایسے لوگوں کو پارلےمنٹ مےں لانا ہوں گے جو عوام الناس کی حقیقی نمائندگی کرسکیں، جن کے پاس عوامی مسائل کا ٹھوس حل موجود ہو، جن کا منشور الفاظ کے گورکھ دھندوں کے بجائے قابل عمل حکمت عملی کا غماز ہو۔
ہر سیاسی جماعت کے نمائندے کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس عوام کے تمام مسائل کا حل ہے، لہٰذا ووٹ انہیں ہی دیا جائے کیونکہ وہ منتخب ہوکر چٹکی بجاتے ہی تمام مسائل کا فوری حل نکال لیں گے۔ جبکہ عوام اپنی تقدیر پر حیران و پریشان ہیں کہ ان کے ساتھ یہ مشق کب تک دہرائی جاتی رہے گی؟ کب تک انہیں ووٹ کے تقدس کے نام پر لوٹا جاتا رہے گا؟ منتخب نمائندوں کی جانب سے مسلسل وعدہ خلافیاں، محض کھوکھلے نعروں اور دعوﺅں کی وجہ سے آج عوام کی نظر میں ووٹ کی اہمیت تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ لوگ انتخابی عمل میں صرف روایتی طور پر شرکت کرتے ہیں۔ سیاستدان بھی جانتے ہیں کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے، اس لیے وہ ہر بار نئے اور خوشنما دعوﺅں کی دکان سجاتے، وعدوں کا نیا جال بنتے اور عوام کو ا ±س میں پھنسالیتے ہیں۔پاکستانی سےاستدانوں کا حافظہ الیکشن جیتتے ہی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے جبکہ انتخابات قریب آتے ہی ان کی یادداشت لوٹ آتی ہے، وہ دوبارہ سے 5 سال قبل کیے گئے دعوﺅں پر نیا میدان مارنے کی تیاری میں ج ±ت جاتے ہیں۔ مگر اس کے برعکس عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے، وہ پرانے کو بھول کر نئے راگ پر اعتبار کرلیتے ہیں اور نتیجے میں پھر وہی دیرینہ مسائل کا انبار ہوتا ہے اور ان کے ناتواں کاندھے۔لیکن اب بہت ہوگیا، 76 برسوں میں لوگوں کے مسائل سات سو گنا بڑھ چکے ہیں۔ اب عوام کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ انہیں اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح معنوں میں اندازہ ہونا چاہیے، ان کے ووٹ کے ذریعے بہت کچھ بدل سکتا ہے، عوام کو اپنے ووٹ کی عزت خود کروانا ہوگی۔ الیکشن کا چاند بن کر آپ کے علاقے یا محلے میں نظر آنے والے امیدوارکو ووٹ دینے سے پہلے انہیں وہ وعدے اور دعوے یاد کروانے ہوں گے جو پچھلے انتخابات سے قبل کیے گئے تھے۔ ان برسوں میں اپنی محرومیوں کا جائزہ لیں، درپیش مشکلات اور پریشانیوں پر ایک نگاہ ڈالیں اور یومِ انتخاب پر اس نام نہاد نمائندوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے یکسر مسترد کردیں۔
بے شک یہ قران و سنت سے دوری کا نتیجہ ہے کہ بے خبری میں ہم گنا ہ کبیرہ کے مرتکب ہو رہے ہیں، امانت میں خیانت کر رہے ہیں کیونکہ ووٹ ایک امانت بھی ہے جس امانت دار تک پہنچانا ہمارا اولین فریضہ ہے نبی مہربان محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم صادق اور امین تھے اور ہمیں ان کی امت ہونے کی حیثیت سے امانت کی حفاظت کا اہل تو ہونا ہی چاہیے یہاں ان لوگوں کا تذکرہ بہت ضروری ہے جو اس گواہی سے اپنا دامن بچا لیتے ہیں یعنی وہ ڈالتے ہی نہیں یہ گواہی کو چھپانے اور امانت دار تک اس کی امانت نہ پہنچانے یعنی خیانت کے زمرے میں آ تا ہے قران کریم میں ہے ”گواہی کو مت چھپاو ¿ جو شخص گواہی کو چھپائے گا اس کا دل گناہ گار ہے یہ نہ سمجھو کہ تمہاری بددیانتی کی اللہ کو خبر نہ ہوگی “۔ یہ انتہائی اہم فریضہ ہے جسے ادا کرنا لازمی ہے یعنی جب آپ سے گواہی مانگی جا رہی ہے تو آپ پر لازم ہے کہ آپ ووٹ (شہادت) دیں۔ تاریخ گواہ ہے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح 40 سے 55 فیصد تک رہی ہے اور باقی آبادی ووٹ کاسٹ ہی نہیں کرتی ان میں سے کچھ وہ خواتین ہیں جنہیں مردوں کی جانب سے وہ ڈالنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ دوسرے جو کسی کو اہل نہیں سمجھتے اور شان بے نیازی سے کہتے ہیں کہ ہم تو کسی کو ووٹ ہی نہیں دیتے حالانکہ وہ جس عظیم گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں اس کا ان کو اندازہ تک نہیں اور کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ چاہے وہ کسی کو بھی ووٹ دیں حالات کبھی نہیں بدلیں گے جسے آنا ہے وہی آئے گا ۔یہ درحقیقت مایوس کیٹگری ہے اور ایک مسلمان مومن کے لیے مایوسی کفر ہے ان کو یقین ہونا چاہیے کہ افرادہی تقدیر بدلنے کا باعث ہوتے ہیں۔
اچھے وقت کی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ایسے موقع پر اس چڑیا کو یاد کریں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ پر اپنی چونچ سے پانی بھر کر ڈالتی تھی حالانکہ اس آگ پر اس چھینٹ کا اثر نہیں ہونا تھا لیکن اس چڑیا نے اپنا حصہ اس نیکی میں ڈال لیا۔ اس طرح اپنا فرض پورا کریں حالات اللہ کے صرف ایک کن کے مرہون منت ہیں اللہ پر بھروسہ رکھ کر اپنی نیت کو درست رکھتے ہوئے اللہ کے کن فیکن پر کامل بھروسہ رکھیں نوریان آسمان نہیں بلکہ جبین خاک ہی انقلاب لاتے ہیں۔ ووٹ( شہادت) دینے سے پہلے تحقیق کرلیں کہ آیا جسے ووٹ دیا جا رہا ہے وہ صادق، امانت دار، دیانت دار اور مخلص ہے؟ اور ان خوبیوں پر اسے دوام حاصل ہے؟ اس میں خصا ل حمیدہ موجود ہیں ؟ ان کے بارے میں گہرائی سے معلومات حاصل کرنا ہمارے ذمہ داری ہے کہ ان کا ماضی ان کا عمل ان کے نظریات قران و سنت کے مطابق ہیں یا نہیں ؟ اگر ہیں تو ان کو ووٹ دیں کیونکہ امت نبی کی نسبت سے اقامت دین ہمارا مقصد ہونا چاہیے اور ایک دیندار حکمران ہی ریاست میں نفاذ شریعت ا وراقامت دین کی راہیں ہموار کر سکتا ہے۔ منتخب ارکان میں جو سب سے زیادہ با صلاحیت سچا ایماندار ہو اسے ووٹ دیں چاہے اس کے مقابلے میں آپ کا بھائی باپ یا آپ خود ہی کیوں نہ کھڑ ے ہوں۔ با صلاحیت کے مقابلے میں بے صلاحیت کو اور دیا نتدار کے مقابلے میں بے دیانت کو ووٹ دینا جائز نہیں حرام ہے۔ یہ جو ہم پر حکمرانوں کی صورت میں افتاد پر افتاد آرہی ہیں یہ ہمارے قوم کی اجتماعی بے ایمانی کا نتیجہ ہے جو ہم نے ووٹ کی صورت میں کی۔ جا گیردار اپنے ہاریوں سے اورتنظیمیں اپنے کارکنان سےووٹ وصول کرتی ہیں۔ تنظیم ،نسل ،زبان ، علاقائی تفریق کے نام پر ووٹ مانگے اور دئیے جاتے ہیں۔
دین کے نام پر نہ مانگے جاتے ہیں اور نہ دیے جاتے ہیں دیکھنا یہ چاہیے کہ دیانت اور صلاحیت اس میں ہے یا نہیں چاہے وہ کسی نسل زبان پارٹی یا علاقے کا رہنے والا ہو اگر امانت دار دیانت دار اور مخلص ہے تو اسے ووٹ دینا آپ کا اولین فریضہ ہ۔ بقول علامہ اقبال
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں، میں اسی لیے نمازی
حقیقی سیاست یہ ہے کہ انسانوں کی علمی، فکری، سماجی اور معاشرتی اصلاح اس طرح کی جائے کہ دنیاو آخرت میں نجات اور سکون حاصل ہواور انسان صحیح معنی میں اپنے خدا کے سامنے سر بسجودہو سکے۔ اسی سیاست کے ذریعہ عدل و انصاف کی حکومت اور ظلم واستبداد کاخاتمہ ممکن ہے۔خدائی احکام پر عمل اور طاغوتی قوانین کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔سیاست کے ذریعہ پرامن اور صالح معاشرہ کی بنیادڈالی جاسکتی ہے۔دراصل سیاست ہر زمانہ میں حضرات انبیاءعلیہم السلام اور ان کے متبعین کامنصب رہاہے۔ خداکی وحدانیت ، انبیاءو رسل کی نبوت و رسالت، حشر ونشر ،قیامت و آخرت اور دین و ومذہب کی تبلیغ و دعوت کے ساتھ ساتھ انھوں نے سیاست وحکومت کے ذریعہ بھی لوگوں کی اصلاح کی ہے۔ظلم وستم کی تاریکی میں اخوت و بھائی چارگی کاشمع روشن کیا ہے اورہمدردی و غمگساری کا سبق سکھایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ووٹ کی شرعی حیثیت کے حوالے سے
مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع عثمانی کا تاریخی فتویٰ
مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع عثمانی کا تاریخی فتویٰ اس ضمن میں ہماری بھرپور رہنمائی کر سکتا ہے ” انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کو چھپانا بھی حرام اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام ہے اس کو محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں شرعا آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اپنے علم و عمل اور دیانت داری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے جس کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں “۔
1۔آپ کے ووٹ یا شہادت کے ذریعے جو نمائندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا برے اقدامات کرے گا اس کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے۔
2۔ اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو اس کا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے ثواب و عذاب بھی محدود قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے اس کا ادنی نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے اس لیے اس کا ثواب و عذاب بھی بڑا ہے۔
سچی شہادت کا چھپانا ازروئے قران حرام ہے اس لیے اگر آپ کے حلقہ انتخاب میں کوئی صحیح نظریہ کا حامل اور دیانت دار نمائندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ نہ دینا گناہ کبیرہ ہے۔جو امیدوار نظام اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے تو اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔
ووٹ کو پیسوں کے معاوضے میں بیچ دینا بدترین قسم کی رشوت ہے اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنا دین قربان کر دینا چاہے کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو کوئی دانشمندی نہیں ہو سکتی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسروں کی دنیا کے لیے اپنا دین کھو بیٹھے۔
( جواہر الفقہ ج2، صفحہ300۔301 مکتبہ دارالعلوم کراچی)