قرآن کی پہلی وحی کی ابتدا ”اقراء“ یعنی پڑھ سے ہوئی اوراس کائنات کے سب سے پہلے انسان اور نبی حضرت آدم ؑ کو تعلیم اللہ تعالیٰ نے خود دی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے"اور اللہ نے آدم ؑکو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیاپھر فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو "۔ (سورۃ البقرہ 31)۔ تدریس پیغمبروں کا پیشہ ہے اور اب چونکہ قیامت تک کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا اس لیے قوموں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کا بوجھ اساتذہ پر ہے، یہ ذمہ داری وہ بطور دینی اور دنیاوی معلم احسن انداز میں نبھا رہے ہیں۔معلم (استاد)کو جو عزت اور وقار آپ ﷺ کی نسبت کی وجہ سے ملا ہے وہ شاید پہلے کبھی ممکن نہ تھا کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا" مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے"۔ آپ ﷺ نے بھی معلم بن کر دین اسلام لوگوں کو سکھایا۔ معلم علم کا سرچشمہ ہوتا ہے اور ملک وقوم کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ہر شعبہ ء زندگی میں پڑھے لکھے،قابل، ہنرمند اور پیشہ ور افراد کی روز افزوں بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین ناگزیر ہیں۔ایک ڈاکٹر،سائنسدان، وکیل خواہ کسی بھی شعبہ زندگی سے منسلک انسان کے پیچھے ہمیشہ کئی قابل اساتذہ ہوتے ہیں کوئی خود بخود تعلیم یافتہ نہیں ہوجاتا،
غیر رسمی تعلیم سے لیکر پی ایچ ڈی تک یا ڈرائیور سے لیکر پائیلٹ تک ہرکسی کو ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کے حصول کے لیے اساتذہ کرام کی رہنمائی اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔اعلیٰ تعلیم کے حصول میں بنیادی تعلیم انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے جسے پرائمری سکول اساتذہ مہیا کرتے ہیں اور یہی اساتذہ معاشرے کا وہ پائیدار ستون ہیں جن کے بل بوتے پر طاقتور مملکتیں، سپر پاورز اور اعلیٰ تخلیقی اذہان جنم لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں معلم وہ خاص مرتبہ نہیں دیا جاتا جس کا وہ حق دار ہے۔ہمارے ملک میں علم اور معلم کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں شایدبطور قوم ہماری ترجیحات کچھ اور ہیں۔آج کے دور میں معلمین شدید معاشی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔
خاص طور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور پرائیویٹ اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کرام کاجو صبح سے شام تک تدریسی کام کے علاوہ غیر تدریسی سرگرمیوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ماہانہ 3 ہزار سے 10 ہزار تک ہی معاوضے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔اس طرح محکمہ خواندگی و غیر رسمی بنیادی تعلیم پنجاب کے معلمین جو دور دراز اوردشوار گزارعلاقوں میں علم کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔یہ نان فارمل بیسک ایجوکیشن (این ایف بی ای)اساتذہ جن میں بیشتر خواتین اساتذہ ہیں، کا ماہانہ مشاہرہ صرف 7 ہزار روپے ہے جو کہ شاذونادر ہی انہیں 3یا 4 ماہ سے پہلے ملتا ہو۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ این ایف بی ای ٹیچرز کثیر الجماعتی طریقہ تدریس (ملٹی گریڈ ٹیچنگ) سے پڑھاتے ہیں،
ایک ہی ٹیچر نرسری کلاس سے پنجم کلاس کے طلباء کوبیک وقت تعلیم دیتا ہے۔اس قدر سخت ترین تدریسی مشقت کے بعد بھی اگرمعاوضہ وقت پر نہ ملے تو یہ کیسا جبر ہے؟جبکہ گورنمنٹ سکولوں میں پڑھانے والے پرائمری اساتذہ کرام جن کی بنیادی تنخواہ22 ہزار روپے ہوتی ہے،جن کے بنیادی سکیل پر نظر ثانی کے بعد بھی حالات کچھ خاص نہیں بدلے۔محکمانہ قوانین اس قدر سخت ہیں کہ استاد ہونا یا غلام ہونا ایک جیسا ہے،ایک استاد 22,000ماہانہ تنخواہ پر زندگی کا گزر بسر کرے جبکہ وہ فارغ اوقات میں اکیڈمی نہیں پڑھا سکتا یاکوئی اور بزنس نہیں کرسکتا۔آج مہنگائی کے دور میں 22,000میں گھر کی دال روٹی ہی چلانا مشکل ہے۔محکمہ تعلیم میں حالیہ کچھ سالوں میں جو ایجوکیٹرز بھرتی کیے گئے ہیں ان میں بیشتر اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ شامل ہیں جبکہ ایم فل اور پی ایچ ڈی اساتذہ کی بھی ایک کثیر تعداد شامل ہے جو بدقسمتی سے پرائمری سکول ایجوکیٹر یا سینئر ایلیمنٹری سکول ایجوکیٹرز کے طور پر سکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں۔
ایم فل اور پی ایچ ڈی اساتذہ کے معقول معاوضہ اور مراعات کے حصول کے لیے ان ٹیچرز کی ایک تنظیم پنجاب ریسرچ سکالرز یونیٹی (PRSU) کے نام سے کوشاں ہے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔پاکستان میں بدقسمتی سے ٹیچنگ ایک ایسا شعبہ بن چکا ہے جس میں اساتذہ اور ان کے گھرانوں کوایک باعزت زندگی میسر نہیں، میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے شعبہء تعلیم سے وابستہ گریڈ19 کے آفیسر کو زندگی بھر اپنی ایک خواہش کے حصول کے لیے دوڑ دھوپ کرتے دیکھا لیکن اپنے بچوں کی اچھی تعلیم ان کی اس خواہش میں رکاوٹ بنی رہی اور وہ اس خواہش کو حسرت کی طرح دل میں لیے راہ عدم سدھار گئے، جبکہ ہمیں بحیثیت پاکستانی شہری یہ بات جاننے کا حق حاصل ہے کہ ہمارے بچوں کے تعلیمی اخراجات اصل میں کس کے ذمہ ہیں، اگر ہم آئین پاکستا ن کی شق 25 (الف)کے تحت کیے گئے وعدے " تعلیم کا حق" کو دیکھیں تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے شعبہ درس و تدریس سے وابستہ افراد کیلئے بہتر سیلری پیکج اور سہولیات فراہم کرے تاکہ وہ اپنے معاش کی فکر کی بجائے ملک و قوم کی تعمیر میں مصروف رہیں اور ایک باوقار زندگی بسر کرسکیں۔