قومی اتحاد، قومی یکجہتی اور قومی تشخص کی علامت و ضامن ہے۔ یہ قومی یکجہتی پیدا کرنے کا ایک موثر ہتھیار بھی ہے۔ یہ زبان ہماری شناخت و ہماری پہچان ہے، ہماری امنگوں کی ترجمان ہے، ہماری تہذیب و تمدن کی عکاس ہے، ہمارے ادب کا زیادہ تر سرمای اردو زبان میں ہے اور اس کی ترقی و فروغ میں ہمارے شاعروں دانشوروں، تنقید نگاروں، سوانح نگاروں، ادیبوں، افسانہ نگاروں، ڈرامہ نگاروں و ناول نگاروں نے ایک موثر و بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ نیز یہ زبان ہی وه زبان ہے، جس میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جن کی بناء پر اسے قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔
اردو ایک اہم زبان ہے۔ یہ ایک بین الا قوامی زبان بھی ہے اور ہماری قومی امنگوں کی ترجمان بھی نیز یہ ایک وسیع زبان ہے اور اس میں مشکل سے مشکل خیالات کو بیان کرنے کی بھی پوری پوری صلاحیت پائی ہائی ہے۔ لہذا ہمیں اپنی زبان سے محبت کرنی چاہئے اور اس کی ترقی و ترویج کیلئے اجتماعی یا ذاتی طور پر زیادہ سے زیادہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی روز مرہ بول چال میں اردو زبان کو ہی استعمال کریں اور دوسروں کو بھی تاکید کریں کہ وہ اپنی زبان میں یعنی قومی زبان اردو کی ترقی و فروغ کیلئے آگے آئیں اور اس سلسلے میں اپنا ایک موثر و بھرپور کردار ادا کریں۔
نیز ہمیں چاہئے کہ اپنی تحریروں، تقریروں، روز مرہ نشست و بدخاست میں مختلف تہواروں کے مواقع پر بھی اپنی قومی زبان کو نظر انداز نہ کریں بلکہ ہر موقع پر اسی کو اظہارِ خیال کا ذریعہ بنائیں۔ اردو زبان کی ترقی و فروغ کیلئے نہ صرف عوامی سطح پر کوششیں ہونی چاہئیں بلکہ اس سلسلے میں حکومت بھی موثر اقدامات کرے یعنی اردو زبان کی ترقی و فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے موثر انتظامات ہونے چاہئیں۔
اسی طرح تعلیمی اداروں میں بھی اردو زبان کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اسی زبان میں تعلیم دی جائے۔ غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم باتیں تو بہت کرتے ہیں، اردو زبان کو اپنی قومی زبان کا درجہ بھی دیتے ہیں، اس سلسلے میں بلند و بالا دعوے بھی کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر اس کے فروغ کو ہم شاید ہی اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوں۔ اور کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس سے اردو زبان کو ترقی ملے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کو نظر انداز کرتے جا رہے ہیں۔ اسے اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے لگے ہیں۔ اس کی جگہ ہم انگریزی زبان کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اردو زبان میں انگریزی کی ملاوٹ کر رہے ہیں اور ستم یہ کہ ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسی میں ہماری ترقی پوشیدہ ہے یعنی ہم انگریزی کو اپنے لئے ترقی کا زینہ خیال کر رہے ہیں۔
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ اردو زبان میں انگریزی الفاظ کو شامل کر کے اس کا بکثرت استعمال کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں انگریزی کی ملاوٹ کا رجحان آج کل خوب فروغ پارہا ہے۔ ہم اردو کے جملوں میں انگریزی الفاظ ملا کر بولتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا تیر مارا ہے۔ ہم فخر کرتے ہیں کہ یہ ہم نے اچھا کیا ہے۔ اس سے دوسروں پر ہماری قابلیت کی دھاک بیٹھے گی۔
تاہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ایسا کچھ نہیں ہے یہ محض ہمارا خیال ہے۔ لیکن ہم ایسا کر کے اپنی ہی زبان سے نا انصافی کر رہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آج تک ذہنی طور پر انگریزوں کی غلامی سے باہر نہیں آسکے ہیں۔ بلاشبہ انگریزی تعلیم بھی وقت کی ضرورت ضرور ہے، لیکن آج کل دیکھا گیا ہے کہ اسے فیشن کے طور پر اپنایا جا رہا ہے۔ ہمارا جب تک کھانا ہی ہضم نہیں ہوتا جب تک کہ ہم اردو زبان میں انگریزی الفاظ کی ملاوٹ نہ کرلیں۔
اردو جملوں میں انگریزی کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ اردو زبان کی جگہ انگریزی کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ اردو زبان کی جگہ ہماری دفتری و تعلیمی زبان بھی انگریزی نے لے لی ہے۔ متمول گھرانوں کے لوگ اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں بھیج کر محسوس کرتے ہیں کہ اُن کا پچہ انگریزی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہے اور وہ وہاں سے عالم فاصل بن کر باہر آئے گا۔
ہم اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ انگریزی ہماری ترقی کیلئے لازم و ملزوم ہے، ہماری ترقی انگریزی زبان میں پوشیدہ ہے۔ لیکن یہ ہماری کم عقلی و نادانی ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کو نظر انداز کر کے انگریزی زبان اپنانے کیلئے کوشاں ہیں۔
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ اردو زبان میں انگریزی کی ملاوٹ کرتے ہیں خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ بہر حال اردو میں انگریزی کی ملاوٹ ضرورت کم اور فیشن زیادہ بن گئی ہے۔ یہ مانا کہ اس کی ضرورت ہے لیکن اردو زبان کو نظر انداز کر کے اسے فیشن کے طور پر اپنانا کوئی دانشمندی والی بات نہیں ہے۔ اس سے صرف یہی ہے کہ ہم ایسا کرکے دوسروں پر اپنی قابلیت و صلاحیت جمانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی سچ ہے عصر حاضر میں اردو میں انگریزی کی ملاوٹ ہماری ضرورت بن کر سامنے آئی ہے۔ عدالتوں پر نظر ڈالیں، انگریزی دفاتر میں انگریزی، تعلیمی اداروں میں انگریزی، اسمبلیوں میں انگریزی، پارٹیوں میں انگریزی۔ آج انگریزی کہاں نہیں ہے آج اس کے بغیر گزارا ہی نہیں۔ یہ ہر جگہ نظر آتی ہے۔
اسے فیشن کے طور پر اپنا لیا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کا تو اوڑھنا بچھونا ہی انگریزی ہے۔ لڑائی جھگڑا انگریزی میں، بات کرتے ہیں تو انگریزی میں، غصہ کرتے ہیں تو انگریزی میں۔ بہرحال آج کے دور میں اردو میں انگریزی کی ملاوٹ فیشن بھی ہے اور ضرورت بھی۔ کوئی اسے فیشن کے طور پر اپنا رہا ہے اور کوئی ضرورت کے تحت۔