تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

اردو کی تاریخ اور ملت اسلامیہ

urdu ki tareekh aur millat islamiya
  • واضح رہے
  • اگست 15, 2021
  • 5:06 شام

اس نئی زبان نے ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ جنم لیا، جس کی تخلیق عربی اور فارسی زبانوں کے اشتراک سے ہوئی

اردو، پاکستان اور ہندوستان کی واحد زبان ہے، جو درۂ خیبر سے چاٹگام اور رنگون سے قلات تک بولی، پڑھی اور لکھی جاتی ہے۔ مختلف زمانوں میں اس کے مختلف نام رکھے گئے۔ ہندی، ہندوی، ہندوستانی، انڈوستانی، ریختہ، گجراتی، مورش وغیرہ۔ اردو کے لفظی معنی لشکر کے ہیں۔

اردو کو زبان کے معنوں میں سب سے پہلے محمد عطا حسین خان تحسین نے ’’نو طرز مرصع‘‘ میں استعمال کیا ہے۔ بعد ازاں میرا من نے ’’باغ و بہار‘‘ مولفہ ۱۸۰۱ء میں اسے زبان کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔

یہ ایک طرح کی مخلوط زبان ہے، جس میں حروف تہجی سے لے کر الفاظ کی ساخت، جملوں کی بناوٹ اور واحد جمع تک کے اصول اگرچہ اس کے اپنے ہیں، لیکن اس کی تخلیق عربی اور فارسی زبانوں کے مقامی بولیوں (پراکرتوں) کے ساتھ میل جول سے ہوئی ہے۔

عربی زبان کا اثر محمد بن قاسم کے بعد سے سندھ کے راستے گجرات تک پہنچا اور فارسی زبان کا اثر محمود غزنوی کے ذریعے پنجابی پر ہوا، جو بعد ازاں اس نئی بولی کو گنگا جمنا کے دوآبے میں لے گئے۔

جب دلی اسلامی حکومتوں کا مستقر بنا تو مقامی باشندوں کے ساتھ میل جول بڑھا۔ عربی، فارسی اور ان کی مخلوط زبان نے مقامی زبان پر اثر ڈالا اور یوں اس اختلاط کے ذریعے ایک نئی زبان وجود میں آگئی، جسے بعد میں اردو کا نام دیا گیا۔

جب علاؤ الدین خلجی نے دکن کو فتح کیا اور محمد بن تغلق نے دہلی کو خالی کرا کے دولت آباد (دکن) آباد کیا تو سندھ، پنجاب اور دہلی کے علاقے کی مخلوط زبان (اردو) گجرات اور حیدرآباد میں داخل ہوگئی۔

ہر چند پنجاب اور دو آبہ کے علاقوں میں یہ نئی زبان ترقی پذیر تھی اور حضرت بابا فرید شکر گنجؒ اور حضرت امیر خسروؒ جیسے بزرگوں نے اس میں نظم کا آغاز بھی کردیا۔ مگر دکن پہنچ کر اس زبان کو جو ترقی کی فضا نصیب ہوئی اس سے پہلے کہیں نہ تھی۔

شمالی گولکنڈہ اور بیجاپور کے درباروں میں اس کی قدر ہوئی۔ چنانچہ اس عہد کی سب سے پہلی کتاب حضرت سید محمد خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی ’’معراج العاشقین‘‘ سمجھی جاتی ہے۔ ان کی اور بھی کئی تصانیف اردو زبان میں ہیں۔

اسی زمانے کے ایک صوفی بزرگ میراں جی شمس العشاق ہیں۔ ان کے کئی منظوم رسالے ہیں۔ ان کے فرزند برہان الدین جانم بھی کئی منظوم رسالوں کے مصنف تھے۔ یہ لوگ عادل شاہی دور کے صوفیاء تھے۔ اس عہد کا سب سے بڑا شاعر نصرتی ہے۔

اردو ایک ایسی زبان ہے، جس نے ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ جنم لیا اور جس کا تحفظ بھی ہمیشہ مسلمانوں ہی نے کیا۔ اگرچہ چند ہندو مصنفین کے نام بھی ہمارے سامنے آتے ہیں، مگر یہ بدیہی حقیقت ہے کہ اردو کی ابتداء صوفیا کرام کے ہاتھوں ہوئی اور اس کی پرورش و نگہداشت، نیز اس کے تحفظ و بقاء کی ذمہ داری مسلمانوں کو نبھانا پڑی۔

پاکستان بننے سے اس زبان کے تحفظ کی ایک راہ نکل آئی وگرنہ کانگریس کے زیر اثر متعصب ہندوؤں نے اس میں سے فارسی اور عربی الفاظ نکال کر سنسکرت کے الفاظ بھرتی کر لئے تھے اور اسے ہندی کا نام دے دیا۔ تحریک پاکستان میں ہندی اردو کا قضیہ ایک مستقل باب رکھتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ تحریک پاکستان اور اردو دو لازم و ملزوم چیزیں بن گئے تھے۔

اردو کے سلسلے میں ایک اور بات قابل توجہ ہے کہ یہ زبان قرآن مجید کے ترجمے سے لے کر تفسیر، حدیث، ققہ، علم الکلام، سیرت، اخلاقیات، عبادات اور تاریخ و تاریخ تک کو سمجھنے میں بے حد معاون ہے۔

ہمارا قدیم ثقافی اور مذہبی ورثہ اگرچہ عربی اور فارسی زبانوں ہی میں ہے اور نہ صرف اردو دان کیلئے ان زبانوں کو پڑھنا اور سمجھنا آسان ہوجاتا ہے بلکہ اردو میں موجود بے شمار اسلامی ادب کا مطالعہ بھی جامعیت اختیار کر جاتا ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے