ماسکو: ترکی کے نائب صدر فواد اوکتائے کے اس بیان پر کہ آذربائیجان کی درخواست ترکی اپنی فوج ناگورنو قرہباخ خطے میں بھیج سکتا ہے، روس نے بالواسطہ طور پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ ماسکو اس مسئلے پر ترکی سے اختلاف رکھتا ہے، کیونکہ وہ آذربائیجان کی مدد کر رہا ہے۔ جبکہ روس اس تنازعہ میں کسی ایک فریق کے ساتھ نہیں۔
روسی صدر نے امریکہ سے بھی اس خطے میں امن کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان ہونےوالی لڑائی کے نتیجے میں 5 ہزار ہلاکتوں کا انکشاف ہوا ہے۔ روسی صدر نے انکشاف کیا کہ اس لڑائی میں 5 ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ لڑائی میں شدت آنے کے ساتھ ساتھ اس میں ترکی اور روس کے شامل ہونے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔
اس سے قبل آرمینیا اور آذربائیجان کی جانب سے فراہم کردہ سرکاری اعداد و شمار کے تحت اس تنازع میں ہونے والی ہلاکتیں ایک ہزار سے کم تصور کی جا رہی تھی۔ ناگورنو قرہباخ کے خود ساختہ حکام نے آگاہ کیا تھا کہ 27 ستمبر سے اب تک 874 فوجی اور 37 سویلین ہلاک ہو چکے ہیں۔ آذربائیجان کا کہنا ہے کہ اس کے 61 سویلین شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم اس نے اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد ظاہر نہیں کی۔
صدر پیوٹن کا ایک اجلاس میں کہنا تھا کہ وہ آرمینیا کے وزیراعظم نیکول پشنیان اور آذربائیجان کے صدر الہام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور صرف کسی ایک ملک کا ساتھ نہیں دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ان سے ایک دن میں کئی مرتبہ فون پر بات کرتے ہیں۔ پیوٹن کا کہنا ہے کہ وہ اس تنازع پر ترکی کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ترک صدر اردگان شاید سخت مزاج لگتے ہیں لیکن وہ ایک لچکدار سیاستدان ہیں اور روس کے قابل اعتماد ساتھی ہیں۔