توشہ خانے کے حمام میں پاکستان کے تمام حکمران ننگے نکلے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ صادق اور امین نہیں ہیں۔وفاقی حکومت نے توشہ خانے کے تحائف کی خریداری سے متعلق 21 سالہ ریکارڈ سرکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیا ہے جس سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ توشہ خانے کی بہتی گنگا میں حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری حکام میں سے کم وبیش سب ہی نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ گویا یہ توشہ خانہ وہ حمام ہے جس میں یہ سب ایک ہی حالت میں نظر آتے ہیں۔ توشہ خانہ کا ریکارڈ عام نہ کیا جاتا تو بھی پاکستانی حکمرانوں کے صادق اور امین ہونے کے بارے میں محب وطن اور باشعور پاکستانی کسی بھی غلط فہمی کا شکار نہیں-
قیام پاکستان کے بعد وزارت خارجہ میں توشہ خانہ بنایا گیا جسے 1973میں کابینہ ڈویژن کے تحت کر دیا گیا تب سے کابینہ ڈویژن میں توشہ خانہ کا شعبہ چلاآرہا ہے ۔صوبائی سطح پر ملنے والے سرکاری تحائف ایس اینڈ جی اے ڈی کے تحت کیبنٹ سیکشن کے پاس رکھے جاتے ہیں۔پہلا حق اس شخص کا تصور کیا جاتا ہے جسے تحفہ ملا ہو اگر کوئی شخص یہ رقم ادا کر کے تحفہ نہ لے تو پھر یہ تحفہ نیلام کر دیا جاتا ہے لیکن اس کی نیلامی میں صرف سرکاری ملازمین ہی حصہ لے سکتے ہیں تاکہ یہ تحائف مارکیٹ میں فروخت نہ ہوں۔ دلچسپ امر یہ ہے کچھ اشیاءکی 20 فیصد قیمت ادا کی گئی ہے۔سرکاری قوانین کے تحت سرکاری افسر، عوامی نمایندے یا مسلح افواج سے وابستہ کوئی بھی افسر سرکاری تحائف ظاہر کرنے کا پابند ہے۔ یہ تحائف فوری طور پر کابینہ ڈویڑن کے تحت توشہ خانہ میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں توشہ خانہ کو شہرت اس میں جمع کرائے گئے تحائف حکمرانوں کی جانب سے اونے پونے داموں اپنے گھروں میں لے جانے یا بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت سے ہوئی۔اصولی طور پر سرکاری مناصب کی وجہ سے ملنے والے تحائف ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں اوراسی لئے دنیا کے اکثر مہذب ملکوں میں انہیں سرکاری میوزیم میں رکھا جاتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے تو سرکاری منصب کی وجہ سے ملنے والا ہدیہ کسی بھی صورت متعلقہ شخص کی ملکیت قرار نہیں پاسکتا۔
افسر شاہی کی لوٹ مار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، بڑی بڑی گاڑیوں میں رعونت سے پھرنے والے سرکاری افسران کو تنخواہ آپ کے اور ہمارے خون پسینے کی کمائی سے ملتی ہے۔ عوام آٹا، چینی، گھی، تیل، نمک، چاول، گوشت، دودھ، پٹرول اور ہر چیز پر بھاری ٹیکس دیتے ہیں۔مہذب دنیا میں ٹیکس لے کر بدلے میں عوام کو سہولیات اور مراعات دی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں پہلی بات کہ امراءٹیکس دیتے ہی نہیں، غریب عوام اور چھوٹے کاروباری افراد کی جیبیں کاٹ کر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور وہ ٹیکس واپس عوام پر خرچ ہونے کے بجائے شاہی افسران کی عیاشی پر خرچ ہوتا ہے۔پاکستان میں سرکاری ملازمت کرنے والے شاہی ملازمین کیلئے مشہور ہے کہ سرکاری افسران کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کیلئے رشوت لیتے ہیں۔
پاکستان میں ارکان اسمبلی، ججوں اور سرکاری افسران لاکھوں روپے تنخواہیں وصول کرنے کے علاوہ سیکڑوں لیٹر پٹرول، نوکر چاکر، گاڑیاں، بنگلے اور ہزاروں یونٹ بجلی مفت ملتی ہے۔پاکستان کا نظام انصاف دنیا میں نچلی ترین سطح پر ہے لیکن ہمارے ججوں کا پروٹوکول کسی راجہ مہاراجہ سے کم نہیں اور تنخواہیں اور مراعات اتنی ہیں کہ کسی بادشاہی نظام کے شاہی سپوتوں کا گمان ہوتا ہے۔پاکستان کے شاہی افسران کی تنخواہ اور مراعات اقوام متحدہ کے افسران سے بھی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں کوئی بھی محکمہ کام کرتا دکھائی نہیں دیتا۔عوام جو پٹرول خریدتے ہیں اس پر 80 روپے کے قریب ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور عالمی اداروں سے اپنی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کیلئے جانے والے قرضوں کی ادائیگی کیلئے غریب عوام کا خون نچوڑا جاتا ہے۔حکومت اپنے اور سرکاری افسران و ملازمین کی تنخواہ، مراعات اور ٹیکس میں کمی کرکے غریب عوام کو جینے کا حق دے سکتی ہے لیکن اس سے شاہی حکمرانوں اور شاہی افسران کے اپنے خرچے کیسے پورے ہوں گے؟۔
بین الاقوامی دوروں میں حکمرانوں کو ملنے والے تحائف سرکار کے توشہ خانہ میں جمع کرائے جاتے ہیں۔توشہ خانہ سے تو گھڑی ،گاڑیاں ، سونے اور چاندی کے زیورات و جواہرات حکمران اٹھاکرلے جاتے ہیں لیکن کیا مساجدکے وضوخانوں سے لوٹے ، لاو ¿ڈ اسپیکر، بلب، جنریٹر اور بیٹریاں بھی حکمران اٹھا کر لے جاتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ یہاں کیاحکمران اورکیاعوام۔ جس کاجو بس چلتا ہے وہ اتنا ہی ہاتھ دکھاتاہے۔ اسی وجہ سے تو یہاں توشہ خانے محفوظ ہیں اور نہ ہی مساجد کے وضوخانے۔ جہاں مساجد کو تالے اور واٹر کولر کے ساتھ لگے گلاسوں کو زنجیریں لگی ہوں وہاں کے حکمران نیک ہو سکتے ہیں اور نہ ہی عوام ایمانداری ودیانت داری میں ایک۔ شمار کے چند گنے چنے طبقوں یا لوگوں کے علاوہ ہماری اکثریت نے جھوٹ، فریب، دھوکا ، بے ایمانی ، خیانت اور منافقت کو اس وقت اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔
بخاری کی ایک حدیث کے مطابق زکوٰةکی وصولی پر مامور ایک صحابی ؓنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وصول کردہ زکوٰةکا مال لائے اور ساتھ ہی کچھ تحائف بھی جن کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ صدقات کے علاوہ لوگوں نے یہ تحائف مجھے ذاتی طور پر دیئے ہیں جس پر حضور نے انہیں متنبہ کیا کہ یہ تحائف تمہیں نہیں تمہارے منصب کو ملے ہیں لہٰذا تمہارا کوئی حصہ ان میں نہیں، یہ سب سرکاری خزانے میں جمع ہونگے۔ اس بناپر پارلیمان کو قانون سازی کرکے توشہ خانے کو مکمل طور پر سرکاری خزانے کا حصہ قرار دینا چاہئے اور ان تحائف کو قیمتاً بھی گھر لے جانے کا راستہ مکمل طور پر بند کردیناچاہیے نیز جن لوگوں نے بلاقیمت یا کم قیمت دے کر تحائف لئے ہیں انہیں انکی پوری رقم قومی خزانے میں جمع کرانی چاہئے یا تحائف واپس کرنے چاہئیں۔