اس دوران میں ٹیپو سلطان کی سیاسی اور فوجی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ تجارت اور صنعت کے علاوہ انہوں نے فرانس کے ساتھ کئی فوجی معاہدے کئے۔ اس وقت نپولین مصر فتح کر چکا تھا۔
یہاں فرانس کے سپہ سالار نپولین بونا پارٹ کا ذکر بھی کرتے چلیں، کیونکہ ان کا اور ٹیپو سلطان کا مشترکہ دشمن ایک ہی تھا۔ یعنی انگریز۔ نپولین کی زیرِ قیادت فرانس نے بہت سارے فرنگستانی علاقوں پر قبضہ کیا اور اس کی خواہش تھی کہ وہ ہندوستان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرے۔
نپولین کا ایک بہت مشہور قول ہے: The greatest glory in living lies not in never falling, but in rising every time we fall۔ ترجمہ: زندہ رہنے کی سب سے بڑی شان یہ نہیں ہے کہ ہم کبھی نہ گریں، بلکہ یہ ہے کہ ہم گرنے کے بعد ہر بار سنبھل جائیں۔
اس دور میں نپولین بونا پارٹ نے جو خط ٹیپو سلطان کو لکھے، اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایران کے راستے ہندوستان آنا چاہتا تھا تاکہ یہاں انگریزوں سے نمٹ سکے۔ اس خط سے انگریز بھی آگاہ تھے۔
ابتدا میں تو وہ خاموش رہے مگر جب مرہٹوں اور نظام کی طرف سے انہیں مکمل معاونت کا یقین ہوگیا تو انگریز گورنر دلزلی نے ٹیپو سلطان کو تہدید آمیز خطوط لکھنا شروع کئے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیپو سلطان کی 49 سال کی زندگی (پہلا حصہ)
ٹیپو سلطان کی دوربین نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت ختم ہونے والی ہے۔ مسلمان آپس کی سر پھٹول کے باعظ کمزور ہو چکے تھے اور سات سمندر پار کی ایک قوم اپنے پنجے اس سرزمین پر گاڑ رہی ہے۔
اگر اس قوم کا مقابلہ نہ کیا گیا تو بہت جلد ہندوستان جیسا زرخیز علاقہ انگریزوں کے قبضے میں چلا جائے گا جو یہاں سے دولت کو ہر روپ میں انگلستان منتقل کر دیں گے۔
مگر افسوس کہ ٹیپو سلطان اپنے محل اور دربار میں ہونے والی سازشوں کو نہ سمجھ سکے۔ بزعم خود انہوں نے فرانسیسی طرز کی جمہوریت کی نیو ڈال دی تھی۔ مگر یہ نہ دیکھا یا اندازہ نہ لگا پائے کہ یہ زمین بھی موزوں ہے یا نہیں۔
میر صادق، پورنیا اور قمر الدین خاں جیسے وزراء اختیارات کو ناجائز طور پر استعمال کر رہے تھے۔ وہ فوری فوائد کے لالچ میں درپردہ انگریزوں سے ملے ہوئے تھے اور حکومت کو مناصب کے بڑے بڑے عہدوں کی امید میں ٹیپو سلطان کا ہر راز ان تک پہنچا دیتے تھے۔
جب ٹیپو سلطان کے دل میں ان سازشوں کے متعلق شکوک پیدا ہوئے تو انہوں نے تمام عہدیداروں کو مسجد اعلیٰ سرنگاپٹم میں بلا کر وفاداری اور ایمانداری کا حلف لیا۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ انگریزوں کی سازشیں عروج پر پہنچ چکی تھیں اور دلزلی جنگ کی دھمکی دے چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیپو سلطان کی 49 سال کی زندگی (دوسرا حصہ)
جولائی ۱۷۹۸ء میں دلزلی نے جنرل ہیرس کو حکم دیا کہ ٹیپو سلطان سے گفت و شنید ختم کر دی جائے اور سرنگاپٹم کا محاصرہ کرلیا جائے۔ ٹیپو سلطان کو علم ہوا تو انہوں نے سفیر کے ذریعے بات چیت پر آّمادگی ظاہر کی، مگر اس کا جواب یہ ملا کہ اب جنرل ہیرس سے ہی بات چیت ہوسکتی ہے۔
فروری ۱۷۹۹ء میں جنرل ہیرس نے پیشقدمی شروع کردی۔ ۲۲ اپریل ۱۷۹۹ء اپریل کو اس نے سرنگا پٹم پر گولہ باری سے پیشتر مصالحت کا ایک مسودہ ٹیپو سلطان کی خدمت میں دستخط کرنے کیلئے بھیج دیا۔
اس میں انتہائی ذلت آمیز شرائط درج تھیں۔ یعنی نصف سلطنت چھوڑ دی جائے۔ دو کروڑ تاوان دیا جائے، جن میں سے ایک کروڑ فوراً ادا کیا جائے۔ چار بیٹے اور چار جرنیل بطور یرغمال دیئے جائیں۔ یہ جواب چوبیس گھنٹے کے اندر مانگا گیا تھا۔
ٹیپو سلطان ایسی ذلت آمیز شرائط پر صلح نہیں کرسکتے تھے۔ ان کا مقولہ تھا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘
من پسند جواب نہ ملنے پر جنرل ہیرس نے قلعہ پر گولہ باری شروع کرادی۔ سلطانی فوج نے اس گولہ باری کا پوری مستعدی سے جواب دیا۔ مگر سلطانی وزرا غداری کی قسم کھائے بیٹھے تھے، انہوں نے گولہ بارود میں مٹی اور سن ملوا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیپو سلطان کی 49 سال کی زندگی (تیسرا حصہ)
۴ مئی کی صبح انگریز افواج نے سرنگاپٹم کے گرد موجود دریائے کاویری کا دو سو گز پاٹ پار کرکے فصیل کے ایک شگاف پر حملہ کیا۔ سلطان نے خود وہاں دفاعی فوج متعین کی تھی۔ مگر عین اس وقت پورنیا نے محافظ فوج کو تنخواہ تقسیم کرنے کے بہانے بلالیا۔ یوں انگریزی فوج بلاتکلف اندر داخل ہوگئی۔
دوپہر کا وقت تھا۔ ٹیپو سلطان مورچوں پر سے چکر لگا کر سائبان تلے آکر بیٹھے تھے۔ کھانا سامنے دھرا تھا۔ ابھی لقمہ اٹھایا ہی تھا کہ ایک جاں نثار سید غفار کے شہید ہونے کی اطلاع ملی۔
پتا چلا کہ انگریز فوج قلعہ میں گھنس آئی ہے۔ سلطان نے یہ کہہ کر کھانے سے ہاتھ اٹھالیا ۔۔۔۔۔ ’’ہم بھی عنقریب جانے والے ہیں۔‘‘
ٹیپو سلطان ڈڈی دروازے کی طرف بڑھے، چند جاں نثار ساتھ تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ قلعہ سے باہر نکل کر کسی اور مقام پر پناہ لی جائے۔ لیکن میر صادق نے باہر نکل کر دروازہ بند کرادیا اور خود شہر کی جانب روانہ ہوگیا۔
راستے میں موجود سلطانی فوج کے ایک جاں نثار نے اس کی غداری کو بھانپ لیا اور پیچھے دوڑ کر تلوار کے ایک ہی وار سے اس کی گردن اڑا دی۔ (جاری ہے)