١٦٧٠ء میں انگریزوں سے دوباره جنگ چھڑ گئی۔ حیدر علی اور سلطان ٹیپو نوے ہزار فوج کے ساتھ کرناٹک جا پہنچے۔ انگریز سپہ سالار سہگیڑ منرو کانجی درم پہنچ کر کرنل بیلی کا انتظار کر رہا تھا، جو سامان رسد و اسلحہ کے ساتھ گنتور سے آرہا تھا۔
ٹیپو سلطان کو بیلی پر حملہ کرنے کیلئے بھیجا گیا۔ سلطان نے بیلی کو کانجی درم سے پندرہ میل پرے بری طرح شکست دے کر قید کرلیا۔ بیلی کی شکست کے بعد اعتراف کیا گیا کہ یہ شدید ترین ضرب تھی، جو ہندوستان میں انگریزی قوت پر لگی۔
ادھر حیدر علی نے منرو پر حملہ کرنے کی بجائے آرکاٹ کا محاصرہ کرلیا۔ ٹیپو سلطان بھی مدد کو پہنچا اور شہر فتح ہوگیا۔ پھر ٹیپو سلطان آبنور اور بعض دوسرے قلعے مسخر کرکے اگست ۱۷۸۱ء میں آرکاٹ پہنچا۔ جہاں سے ۱۷۸۲ میں اسے تنجاور بھیج دیا گیا۔ یہاں اس نے کرنل بریتھویٹ کو شکست فاش دی۔
عقب سے خبر ملی کہ انگریز فوجیں ساحل مالا بار پہنچ رہی ہیں۔ چنانچہ سلطان فوراً پلٹے اور پال گھاٹ کا محاصرہ کرلیا۔ انگریز ان کے پہنچنے سے پہلے ہی پال گھاٹ خالی کرکے پونانی پہنچ گئے۔ ٹیپو سلطان نے پونانی کا بھی محاصرہ کرلیا۔ مگر ابھی وہ حملہ نہ کر پائے تھے کہ حیدر علی کے انتقال کی اطلاع ملی۔
حیدر علی نے ۷ دسمبر ۱۷۸۲ء کو وفات پائی۔ سرداروں نے فوراً مہا مرزا خاں کو ٹیپو سلطان کی طرف بھیجا اور میّت کو غسل دے کر تابوت میں رکھا اور مناسب پہرے کے ساتھ کولار کی طرف بھیج دیا۔ نیز چھوٹے بیٹے عبدالکریم کو عارضی طور پر مسند نشین کردیا۔
۱۱ دسمبر ۱۷۸۲ء کو ٹیپو سلطان کو خبر ملی اور وہ اسی وقت روانہ ہوگئے۔ ۲۵ دسمبر ۱۷۸۲ء کو وہ چمکور پہنچ گئے، جہاں اس کا لشکر ٹھہرا ہوا تھا۔ اس نے تمام ماتمی رسوم کی ممانعت کردی اور ۲۰ محرم ۱۱۹۷ھ/ ۲۶ دسمبر ۱۷۸۲ء کو خاموشی کے ساتھ مسند نشینی کی رسم ادا ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیپو سلطان کی 49 سال کی زندگی (پہلا حصہ)
تخت نشینی کے وقت ٹیپو سلطان کی سلطنت دکن میں شمالی طرف دریائے کرشنا، جنوبی سمت ریاست ٹرانکور، مشرق میں مشرقی گھاٹ اور مغرب میں ساحلِ سمندر تک پھیلی ہوئی تھی۔
آبادی، زرخیزی اور حسن انتظام کی بدولت یہ ایک شاندار سلطنت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کے علاوہ مقامی ہمسائے مرہٹے اور نظامِ حیدر آباد اس علاقے کو ہتھیانے کی فکر میں تھے۔
مگر دوسری طرف اس علاقے کا فرمانروا ایک ایسا سلطان تھا، جو نہ صرف موروثی طور پر جری اور مجاہد تھا بلکہ دور شہزادگی میں بھی عزم و حوصلے اور تدبّر کی داد لے چکا تھا۔
حکومت سنبھالتے ہی ٹیپو سلطان نے سب سے پہلا کام اپنی فوج کو منظم کرنے کا کیا۔ اس نے باقاعدہ رجمنٹیں مقرر کیں اور ماہوار تنخواہ مقرر کردی۔ اس سے پہلے ہندوستان میں ماہوار تنخواہ کا تصور بھی نہیں تھا۔
ٹیپو سلطان نے فرانسیسی افسروں کی خدمات حاصل کیں تاکہ فوج کو یورپی نمونے پر منظم کیا جاسکے۔ عام روایت کے مطابق ٹیپو سلطان کی باقاعدہ فوج ایک لاکھ کے قریب تھی۔
انگریز نے جنرل میتھیوز کی سرکردگی میں از سر نو مالابار پر حملہ کردیا اور بڈنور کے حاکم ایاز خاں نے نہ صرف شہر و قلعہ بلکہ پورا صوبہ بڈنور اس پر شرط پر انگریزوں کے حوالے کردیا کہ اس کی حکومت بدستور اسی کی تحویل میں رکھی جائے۔
ٹیپو سلطان کو خبر ہوئی تو انہوں نے لطف علی بیگ کو دفاع کی غرض سے بھیجا۔ اس وقت تک انگریز ایاز خاں سے سمجھوتے کے مطابق بڑے علاقے پر قابض ہو چکے تھے۔ لطف علی بیگ نے باقی علاقے کو بچانے کی کوشش کی، لیکن انگریزوں کی قوت کے سامنے اس کی ایک نہ چلی۔ فتح کے بعد انگریزوں نے وہاں انتہائی دردناک مظالم روا رکھے۔
یہ خبریں ٹیپو سلطان تک پہنچیں تو وہ آتش فشاں بن کر اٹھے اور انگریزوں پر چھا گیا۔ انہوں نے ایک ہی حملے میں بڈنور پر قبضہ کرلیا۔ یہاں وہ بنگلور پہنچا اور اس کا محاصرہ کرلیا۔ انگریز جنرل کیمبل نے ۲ اگست ۱۷۸۳ء کو صلحانامہ پر دستخط کر دیئے۔ ہر طرف سے شکست و ہزیمت اٹھاکر انگریزوں نے میسور میں سازشوں کا آغاز کردیا۔
سرنگاپٹم میں ہندو راجا کو گدی پر بٹھانے کی سازش رچائی گئی، لیکن ٹیپو سلطان کی تدبیروں کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور نتیجتاً ۱۱ مارچ ۱۷۸۴ء کو انگریزوں اور سلطان کے مابین ایک معاہدے پر دستخط ہوگئے، جس کی رو سے فریقین نے مفتوحہ علاقے واپس کردیئے اور اسیران جنگ کو چھوڑ دیا۔
انگریزوں سے امن معاہدہ کے بعد ٹیپو سلطان نے دیگر فریقین کے ساتھ معاملات سیدھے کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے مرہٹوں اور نظام کے ساتھ اتحاد کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن کامیاب ہوپائے۔
ادھر نظام اور مرہٹوں کے درمیان اس امر پر اتفاق ہوگیا کہ میسور کی سابقہ ریاست چھوڑ کر باقی تمام سلطانی مقبوضات کو چھین کر باہم تقسیم کرلیا جائے۔ تاہم ایک جھڑپ کے بعد دونوں فروری ۱۷۸۷ء میں سلطان کے ساتھ صلح پر مجبور ہوگئے۔ اور طے پایا کہ دونوں طاقتیں انگریزوں کے خلاف سلطان کو مدد دیں گے۔ (جاری ہے)