تحریک آزادیٔ ہندوستان کے پہلے شہید ٹیپو سلطانؒ (۲۰ذی الحج ۱۱۶۳ھ/ ۲۰ نومبر ۱۷۵۰ء۔ ۲۹ ذی قعدہ ۱۲۱۳ھ/ ۴ مئی ۱۷۹۹ء)
آپ ہندوستان کی سلطنت میسور کے آخری فرمانروا شیر میسور نواب حیدر علی کے بیٹے تھے۔ بچپن سے ہی نڈر اور اعلیٰ ظرف طبعیت کے مالک تھے۔ دیون ہلی کے مقام پر پیدا ہوئے۔ والدہ کا نام فاطمہ فخر النساء تھا۔
حیدر علی نے نرینہ اولاد کی آرزو میں آرکاٹ کے مشہور بزرگ ٹیپو مستان دلی کے مزار پر دعا مانگی تھی۔ اس لئے بیٹے کا نام انہی بزرگ کے نام پر رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیپو سلطان کا اصل نام فتح علی تھا، لیکن تاریخ سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ان کا نام فتح علی تھا یا کنیت ابو الفتح تھی۔ البتہ ان کے ایک بیٹے کا نام فتح حیدر ضرور تھا۔
’’تاریخ حمید خاں‘‘ کے مصنف محب الحسن خان کی روایت کے مطابق ۱۷۶۷ء میں نظامِ دکن نے ٹیپو سلطان کو ’’فتح علی خاں بہادر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ’’نشان حیدری‘‘ کے مولف حسین کرمانی کے بقول حیدر علی نے ایک وفد ٹیپو سلطان کی سرکردگی میں دکن روانہ کیا تھا، جہاں انہیں ’’نصیب الدولہ‘‘ کا خطاب ملا۔
بچپن سے ہی ٹیپو سلطان جری، محنت کش اور صاحب لیاقت تھے۔ اسلامی علوم کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، اردو، تامل، کنڑی جیسی زبانوں پر بہت جلد عبور حاصل کرلیا۔ نیز اس زمانے میں فنون سپہ گری، شمشیر زنی، تیرافگنی، نیزہ بازی، تفنگ اندازی، تیراکی وغیرہ کی بھی کما حقۂ مہارت حاصل کرلی تھی۔
اور سن بلوغ تک پہنچتے پہنچتے ٹیپو سلطان حرب و ضرب کے آداب اور رزم و پیکار کے انگریزی طریقوں سے بھی واقف ہو چکے تھے۔ ۱۷۶۵ء میں فوجی زندگی میں ٹیپو سلطان پہلی بار ہمارے سامنے آئے، جب وہ حیدر علی خاں کے ساتھ مالابار پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
یہاں ٹیپو سلطان نے صرف دو تین ہزار سپاہیوں کے ساتھ دشمن کے ایک بڑے لشکر کو حراست میں لے لیا، جس پر حیدر علی نے خوش ہو کر انہیں اپنی محافظ فوج میں شامل کرلیا اور جاگیر عطا کی۔
۱۹ جون ۱۷۶۷ء کو ٹیپو سلطان مدراس اور اس کے مضافات پر چھاپے مار رہے تھے۔ اس وقت انگریز پہلی بار میسور میں حیدر علی پر حملہ آور ہوئے تھے۔ یہاں سے وہ واپس لوٹتے ہوئے ترماپورا اور دانم باڑی کی تسخیر میں والد کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ نیز آبنور کے محاصرے میں بھی شریک رہے۔
جب انگریز فوج نے منگلور (بندر کوڑیال) پر قبضہ کرلیا تو ٹیپو سلطان کو ان کے مقابلے کیلئے بھیجا گیا۔ ان کے پیچھے پیچھے حید علی بھی وہاں پہنچے۔ یہاں انہوں نے عجب چال چلی اور بیگار میں پکڑے ہوئے بیس ہزار افراد کو لکڑی کی بندوقیں دے کر ہزار ہزار کے دستے کی شکل میں انگریز توپ خانے کے سامنے کھڑا کردیا۔
اس اثنا میں ٹیپو سلطان خود انگریز مورچوں پر حملہ آور ہوئے۔ اس محاذ پر ٹیپو سلطان کو ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔ فتح یابی کے بعد حیدر علی مدراس کی طرف روانہ ہوگئے اور ۴ اپریل ۱۷۶۹ء کو حکومتِ مدراس کو صلحنامہ لکھنے پر مجبور کردیا۔
اس سے دیسی ریاستوں میں کمپنی کا وقار گر گیا اور انہوں نے خود کو مضبوط اور مستحکم محسوس کیا۔ حیدر علی انگریزوں سے نمٹ کر جب واپس آئے تو مرہٹہ فوجیں ترمبک راؤ کی قیادت میں میسور کے دروازوں پر دستک دے رہی تھیں۔
ساونور اور کڑپہ کے سردار بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس مرحلے پر ٹیپو سلطان کو حکم ملا کہ وہ مرہٹوں کی رسد کو تباہ کردیں۔ چنانچہ انہوں نے مرہٹوں کے عقب میں تمام کنوؤں اور تالابوں میں زہر ڈلوا دیا اور کھیت روند ڈالے۔ اب حیدر علی نے بھی مرہٹوں کے عقب پر چھاپہ مارنا چاہا۔
تاہم مرہٹوں کو اپنے گرد تنگ ہوئے گھیرے کا علم ہوگیا اور انہوں نے پلٹ کر جنگ شروع کردی۔ مشیروں کی رائے کے خلاف حیدر علی سرنگا پٹم کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس افراتفری میں ٹیپو سلطان اپنے والد سے جدا ہوگئے، جس کا مرہٹوں نے فائدہ اٹھایا۔
مرہٹوں نے یہاں ایک سازش رچائی اور ٹیپو سلطان کی گرفتاری کا اعلان کردیا حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ مرہٹوں کا خیال تھا کہ ٹیپو سلطان کی گرفتاری کا ڈرامہ رچا کر وہ حیدر علی کو پسپائی پر مجبور کردیں گے۔
تاہم ٹیپو سلطان نے ان کے اس منصوبے کو ناکام دیا اور دو دن بعد جانثاروں کے ساتھ بھیس بدل کر سرنگاپٹم پہنچ گئے۔ دونوں باپ بیٹا ایک ماہ تک وہاں موجود رہے۔ ترمبک راؤ تینتیسویں دن محاصرے سے تنگ آگیا اور وہاں سے اٹھ کر تنجاور کی طرف چلا گیا۔
۱۷۷۲ء میں مرہٹوں کے پیشوا مادھو راؤ کی وفات کے بعد دربار پونا کی اندرونی کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حیدر علی نے دریائے تنگ بھدرا اور کرشنا کے درمیانی علاقے مرہٹوں سے چھین لئے۔ ان میں اکثر مہمات میں ٹیپو سلطان بھی شریک رہے۔
(جاری ہے)