متنازعہ ویڈیو شیئرنگ ایپ پر موجود غیر اخلاقی اور نامناسب مواد معاشرے کیلئے تباہ کن ہے۔ کم عمر بچے اور طلبا و طالبات متنازعہ ایپ پر موجود غیر اخلاقی مواد سے اخلاقی طور پر تباہ ہو رہے ہیں۔ جبکہ پرینکس کے نام پر بھی بے ہودگی کا سلسلہ جاری ہے، جسے روکنے ٹوکنے کیلئے کوئی ادارہ موجود نہیں۔
معاشرے میں جنم لینے والی ’’جدید برائیوں‘‘ کی وجہ سے سائبر کرائم سرکل میں شکایات کا تناسب 80 فیصد بڑھ گیا ہے، مگر حکومت اور اس کے کرتا دھرتاؤں کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ حکومت کے پاس دیگر مسائل کی طرح اس حساس مسئلے کا بھی کوئی حل نہیں۔ بلکہ لگتا ہے کہ حکومت خود ہی معاشرے میں خرابیوں کو بڑھاوا دے رہی ہے۔
بھلا ایسی حکومت سے کیا امید کی جاسکتی ہے، جس کا سربراہ اور چیلے خود حریم شاہ جیسی عورتوں کے ساتھ تصاویر بنواتے ہوں۔ انہوں نے مین اسٹریم میڈیا پر تو قدغن لگانے کی ٹھان لی ہے مگر ٹک ٹاک سمیت سوشل میڈیا پر جاری بے ہودگی کا بازار بند نہیں کرا رہے۔
اسی طرح مین اسٹریم میڈیا پر اپنے حامیوں کو بھی جھوٹ کے انبار لگانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ مین اسٹریم میڈیا کا ایک نوسر باز اینکر و میزبان جو مینار پاکستان واقعہ کے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کی بدنامی میں پیش پیش رہا، اسے ابھی تک مقدمہ میں شامل تفتیش ہی نہیں کیا گیا۔
حالانکہ وہ اس سے پہلے بھی کئی جعلی پروگرام کرنے اور لوگوں کو بلیک میل کرنے جیسے جرائم میں ملوث رہا ہے۔ قارئین کرام آپ ہی بتائیں اس بد ذات انسان کے پاس ایسی کون سی طاقت ہے کہ اس کے خلاف کسی قسم کی تحقیقات ہوتی ہیں نہ اس کا جعلساز پروگرام بند کیا جاتا ہے۔
مائیک پکڑ کر زور زور سے بولنے والا ایک دوسرا کردار شاید خود کو صحافی سمجھتا ہوگا، لیکن شاید اسے یہ علم نہیں کہ صحافت کے شوق میں ملک فروشی کے اس سارے کھیل میں وہ کتنی بری طرح استعمال ہوا ہے۔ وہ بیچارہ تو اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں اچھل اچھل کر آیا اور ملک کی بدنامی میں اپنا حصہ ڈال گیا۔
ٹک ٹاک وزیر اعظم کی موجودہ حکومت سے تو یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ ایسے نوسر بازوں کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی، کیونکہ اس کا اپنا دامن داغ دار ہے۔ جو کشمیر فروش ہوں، ملک فروش ہوں اور سب سے بڑھ کر ضمیر فروش ہوں، وہ بھلا کیا اس معاشرے کی بہتری اور فلاح و بہبود کیلئے کام کریں گے۔ ان کے دور میں ہمارا معاشرہ اخلاقی پستی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔
واضح رہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک نے ٹک ٹاک کی فتنہ گریوں سے تنگ آکر اسے بند کردیا ہے۔ جبکہ متعدد ممالک میں یہ گوگل پلے اسٹور سے بھی ہٹائی جاچکی ہے۔ ٹک ٹاک کے باعث پاکستان میں بچے اور طلبا و طالبات اپنی روایات اور ثقافت سے دور کسی اور ہی دنیا میں مگن ہو رہے ہیں، جو مستقبل کے معماروں سمیت ملک و قوم کیلئے بھی نقصان دہ بات ہے۔
کئی والدین اور اساتذہ نے نام نہاد وزیراعظم پورٹل پر اس سلسلے میں شکایات بھی کیں کہ ٹک ٹاک کی غیر اخلاقی اور بے حیائی پر مبنی ویڈیوز سے بچے بگڑ رہے ہیں۔ لیکن حریم شاہ، عائشہ اکرام اور اس جیسی دیگر سستی شہرت کی حامل ٹک ٹاکرز کے دیوانے متنازعہ ایپ کو بند کرنے کے حق میں دکھائی نہیں دیتے۔
پنجاب میں عوامی مقامات پر ٹک ٹاکرز کا داخلہ بند کرکے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت کو معاشرے کے اقدار کا بہت خیال ہے۔ حالانکہ یہ پابندی بے سود ہے۔ جب تک ٹک ٹاک کی ویڈیوز عوام خصوصاً بچوں اور نوجوانوں تک پہنچتی رہیں گی، معاشرتی بگاڑ کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جائے گا۔
ٹک ٹاک کے علاوہ ایسے پرینکس کی ویڈیوز بنانے والوں کو بھی بین کیا جانا چاہیئے، جو عوامی مقامات پر دندناتے پھرتے ہیں۔ فیملی پارکس، ساحل سمندر اور معروف پوائنٹس سمیت کوئی جگہ ان سے محفوظ نہیں۔
یہ لوگ کبھی کسی کا کھانا چھین کر بھاگنے کی ویڈیو بناتے ہیں، تو کبھی پارکس میں خوفناک شکلیں بناکر تفریح کیلئے آنے والوں کو ڈراتے ہیں، تو کبھی غول کے غول کی صورت میں گاڑی کا گھیراؤ کرکے اسے ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسی ویڈیوز یا پرینکس کو یہ افراد اپنی تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جو ایک نارمل انسان نہیں کرسکتا۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ذمہ دار شہری ہونے کے ناتے ہمیں خود اس گندگی کو پھیلنے سے روکنے اور اس کے تدارک کیلئے اپنی اپنی سَکت کے مطابق کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ حکومت تو خود ٹک ٹاک ہے۔
تحریر: محمد علی