اس کی وجہ ہمارے معاشرے میں عام بول چال میں استعمال ہونے والے انگریزی کے الفاظ کا بے دریغ استعمال ہے۔ بہر حال ہم جیسے لوگ اپنی جانب سے کوشش کررہے ہیں کہ اردو کو اردو میں ہی رہنے دیں۔ ابھی ایک مختصر سی تحریر نظر سے گزری ہے جو آپکی نظر کر رہا ہوں، لکھنے والے نے لکھا ہے کہ کوئل اپنی زبان بولتی ہے اس لئے آزاد رہتی ہے جبکہ طوطا دوسروں کی زبان بولتا ہے اس لئے قید میں رہتا ہے۔ ہم بھی قیدی ہیں۔
جو لوگ منصوبہ بندی سے شناسائی رکھتے ہیں ان کیلئے یہ الفاظ جانے پہچانے ہیں اور عام فہم میں۔ انہیں دور تک اور قریب تک سے بھی جانا جاتا ہے۔ جو ادارے منصوبہ بندی کی بنیاد پر اپنے جز وقتی اور کل وقتی فیصلے کرتے ہیں کسی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ جن اداروں میں حالات و واقعات فیصلہ کرواتے ہیں وہ ادارے حالات و واقعات کی ہی نظر ہوجاتے ہیں۔
جیسے کہ کوئی حادثاتی کچھ بن جاتا ہے اور کوئی حادثاتی کچھ بن جاتا ہے، ایسے میں استحکام کی عدم دستیابی یقینی ہوتی ہے۔ کیا ہم ایسا مان لیں کہ ایک وقت تک دنیا کے مختلف ممالک کی ہوائی سہولیات کو بہتر بنانے میں معاونت کرنے والا پاکستان بین الاقوامی ہوائی ادارہ عدم منصوبہ سازی کے بحران کی نظر ہوگیا اور منافع بخش ادارہ خسارے کا شکار ہوتے ہوتے ملک پر بوجھ بن کر رہ گیا ہے۔
ایسا ہی کچھ حال پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیل مل کا بھی ہوا جس کی روداد آج حرف عام ہے۔ یہ ادارے منصوبہ سازوں کے ہاتھوں سے لے لئے گئے اور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دئیے گئے جن کا اس ملک سے کچھ لینا دینا تھا اور ناہی یہ لوگ اداروں کو منظم اور مستحکم رکھنے کے خواہاں تھے۔ یہ ادارے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے جنہیں کسی منظم سازش کے تحت تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا اور ابھی تک یہ ادارے اپنی بقاء کی جنگ میں بر سرپیکار ہیں۔
یہ ادارے گزشتہ کئی سالوں سے ملک کی معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں بلکہ کسی سفید ہاتھی کی ذمہ داری نبھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان اداروں اس ان جیسے تمام اداروں کی تباہی میں ہر کام کرنے والے کا حصہ ہے۔ لیکن سب سے بڑا حصہ حکومتی اراکین کا ہے جن کے کہنے پر ایسے اداروں میں بے وجہ بھرتیاں کی جاتی رہی ہیں اور ادارے کے سربراہوں کی تعیناتی کی گئیں۔ یعنی قابلیت پر سفارش اور مفاد کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال ایک دن یا آٹھ ماہ میں ایسی نہیں ہوئی، یہ بربادی کی ایک طویل داستان ہے اور برباد کرنے والے بڑے بڑے محلوں میں بیٹھے اس حال پر ماتم کرنے کے بجائے دوسروں کو مورد الزام ٹہرا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایوان میں کھڑے ہوکر ایک نامی گرامی سیاست دان یہ فرما رہے تھے کہ پاکستان کی معیشت ایسی تاریخ میں کبھی خراب نہیں ہوئی، جب ان سے پوچھا جائے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے تو وہ اور ان کے باقی تمام ہم رکاب ایوان سے اٹھ کر بھاگنے لگتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہیں شرم آتی ہے اور نہ ہی حیاء آتی ہے۔
پی ٹی آئی نے پاکستانیوں کے منہ میں زبان دی ہے گوکہ اس کی وجہ سے یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ نئی نسل کو بدتمیز بنا دیا گیا ہے۔ ہمارا دین ہمیں اجازت دیتا ہے کہ حق اور سچ کہنے سے مت ڈرو تو پھر حق اور سچ کہنے سے کیسے بدتمیز ہوگئے۔ پی ٹی آئی نے چور کو چور اور ڈاکو کو ڈاکو کہنے کا حوصلہ عوام کو دیا ہے گوکہ ابھی تمام پاکستانی اس فہم سے آشنا نہیں ہیں لیکن جلد ہی یہ شعور کی شمع سارے پاکستان کو روشن کردے گی اور جھوٹ بولنے والوں کو کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی، آج بھی منہ چھپانے ملک سے باہر جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ایک ابھی تک اپنی کارگردگی کا مظاہرہ کھل کر نہیں دکھا سکی ہے جسکی سب سے اہم وجہ معاشی بدحالی ہے۔ ان حالات سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم عمران خان نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو بلا تفریق موقع فراہم کریں جو ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں مدد گار ثابت ہوسکیں۔ کیا اس بات سے ملک سے مخلص ہونے کی گواہی نہیں ملتی یا پھر واقعی یہ تمام تعیناتیاں و بھرتیاں کسی اور کہ کہنے پر ہورہی ہیں۔
اگر وزیر اعظم صاحب اسپتالوں اور دیگر اداروں کے اچانک دورے کر رہے ہیں تو ان کی ٹیم کے باقی تمام ممبران اپنے اپنے حلقے کے ایسے دورے کیوں نہیں کر رہے۔ حکومت وقت جسے کسی حد تک ایک پیشہ ور طرز پر چلائے جانے کا عندیہ دیا جاتا رہا ہے کیا طویل اور مختصر مدتی منصوبوں پر کام کر رہی ہے یا پھر ویسے ہی بس کام کر رہی ہے۔ بظاہر جو تاثر مل رہا ہے کہ وہ یہی ہے کہ تمام کام باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سرانجام پا رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب کہ علم میں ہے کہ جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو وہاں سدھار لانے میں زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔
یوں تو ہنگامی صورتحال کا اعلان کرکے حکومت کو بنیادی سہولیات والے اداروں کو مختصر وقت میں سدھارنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانی چاہئے جن میں بلدیاتی ادارے صفحے اول پر آتے ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جو گلی محلوں میں حکومت کی کارگردگی کا منہ بولتا ثبوت ہوتے ہیں۔کیونکہ تحریک انصاف کی سیاست اسلئے نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے کام نا کریں اور لوگ آکہ انکی منت سماجت کریں اور اپنی واہ واہ کرواتے پھریں۔
مختصر وقتی منصوبوں میں سب سے اول نمبر پر بلدیاتی نظام کو مستحکم اور صوبائی حکومت سے آزادی دلانا ہونا چاہئے۔ یہ وہ نظام ہے جو اگر صحیح معنوں میں کام کرنا شروع کر دے تو ترقی ہو یا نا ہو لیکن ہمارے شہر گاؤں دیہات کسی ترقی یافتہ ملک کی جیسے دکھائی دینے لگیں گے۔ دوسرے نمبر پرحکومتی نمائندے عوام میں اپنے اپنے حلقوں میں موجود رہیں لوگوں سے ملتے رہیں انہیں یہ احساس نہ ہونے دیں کہ وہ آپ سے دور ہیں، یہ ایسا کارنامہ ہوگا کہ آپ کچھ نا کر کے بھی آنے والے وقتوں کیلئے اپنی جگہ عوام کے دلوں میں بنالیں گے۔