تاجکستان کی ہائی سیکورٹی جیل میں خونریز تصادم کے نتیجے میں 3 گارڈز سمیت 32 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ تاجک حکومت کے مطابق دہشت گرد تنظیم داعش کے زیر حراست کارندوں نے فرار ہونے کیلئے جیل کے محافظوں اور 5 ساتھی قیدیوں پر چاقو حملے کئے۔ اس کے بعد جیل کے اسپتال کو آگ لگا دی گئی، جبکہ کئی قیدیوں کو یرغمال بھی بنایا۔ اتوار کی شب شروع ہونے والی ہنگامہ آرائی کئی گھنٹے جاری رہی۔
تاجک وزیر انصاف نے بتایا کہ چاقو بردار داعش کارندوں نے جیل سے فرار ہونے کیلئے قیدیوں کو انسانی ڈھال بنا ہوا تھا، لیکن سیکورٹی فورسز نے کامیاب آپریشن کرکے جیل کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ سیکورٹی فورسز کی کارروائی میں 24 داعش کارندے مارے گئے، جبکہ 25 کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یرغمال بنائے گئے قیدیوں کو بھی بازیاب کرالیا گیا ہے اور اب جیل کے حالات کنٹرول میں ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق مذکورہ جیل دارالحکومت دوشنبے سے 10 کلو کے فاصلے پر واقع وحدت شہر میں ہے، جہاں 1500 قیدی موجود ہیں۔ یہاں زیادہ تر قیدی دہشت گرد تنظیموں سے تعلق اور حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں سزائیں کاٹ رہے ہیں۔
جیل انتظامیہ کے مطابق ہنگامہ آرائی 20 سالہ بہروز گل مراد نے شروع کی، جو 2015 میں داعش میں شامل ہوجانے والے تاجک اسپیشل فورسز کے کرنل گل مراد خالیموف کے بیٹے ہیں، بتایا گیا ہے کہ کرنل گل مراد شام میں داعش کیلئے لڑتے ہوئے ہلاک ہو چکے ہیں۔
سیکورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں کالعدم تنظیم (آئی آر پی ٹی) کے دو سینئر ارکان بھی شامل ہیں۔ جبکہ صدر امام علی رحمان کی حکومت کو گرانے کی سازش کے الزام میں زیر حراست مذہبی اسکالر بھی فائرنگ کے نتیجے میں مارا گیا ہے۔