اسٹیٹ بینک نے آئندہ دو ماہ کیلئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔ متوقع طور پر شرح سود میں 1.50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد شرح سود 10.75 سے بڑھ کر 12.25 فیصد ہوگئی۔
اسٹیٹ بینک اعلامیہ کے مطابق ابھرنے والے مہنگائی کے مضمر دباؤ سے نمٹنے کیلئے مزید پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ عمومی اور قوزی (core) مہنگائی کے حالیہ ماہ بہ ماہ بلند اعدادوشمار، شرح مبادلہ میں حالیہ کمی، مالیاتی خسارے کی بلند سطح اور اس کی بڑھی ہوئی تسکیک اور یوٹیلٹی نرخوں میں ممکنہ ردّوبدل کے تناظر میں زری پالیسی کمیٹی نے 21 مئی 2019ء سے پالیسی ریٹ کو 150 بی پی ایس بڑھا کر 12.25فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق مارچ 2019ء میں زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے تین نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ اوّل، حکومت ِپاکستان کا عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ اسٹاف کی سطح پر 39 ماہ پر محیط توسیعی فنڈ سہولت کے تحت تقریباً 6 ارب ڈالر کے لیے اتفاق ہوگیا ہے۔ پروگرام کا مقصد معاشی استحکام بحال کرنا اور پائیدار معاشی نمو میں معاونت کرنا ہے اور توقع ہے کہ اس کے نتیجے میں خاصی مزید بیرونی مالکاری(financing) آئے گی۔ دوم، مالی سال 18ء کی اسی مدت سے موازنہ کیا جائے تو حکومتی قرض کے رجحانات مالی سال19ء کے پہلے نو ماہ کے دوران بڑھتے ہوئے مالی خسارے کی عکاسی کرتے ہیں ۔علاوہ ازیں خسارے کی مالکاری کے لیے مرکزی بینک پر زیادہ انحصار نے پچھلی زری سختی کے اثر کو ہلکا کردیا ہے ۔ آخراً، گذشتہ زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس سے اب تک شرح مبادلہ میں 5.93فیصد کمی آئی ہے اور 20 مئی 2019ء کے اختتام پر 149.65 روپے فی امریکی ڈالر پر پہنچ گئی ہے، جس سے مضمر معاشی عوامل اور مارکیٹ کے احساسات کے امتزاج کی عکاسی ہوتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 19ء میں معاشی نمو سست ہونے جبکہ مالی سال 20ء میں کسی قدر بڑھنے کی توقع ہے۔ یہ سست رفتاری زیادہ تر زراعت اور صنعت کی پست نمو کی وجہ سے ہے۔ مالی سا ل 19ء میں حقیقی جی ڈی پی نمو کا دوتہائی سے زائد حصہ خدمات سے آنے کی توقع ہے۔ آگے چل کر آئی ایم ایف کی مدد سے چلنے والے پروگرام، شعبہ زراعت میں تیزی اور برآمدی صنعتوں کے لیے حکومتی ترغیبات کے تناظر میں مارکیٹ کے احساسات بہتر ہونے کے طفیل معاشی سرگرمیوں میں بتدریج بحالی کی توقع ہے۔
بیرونی شعبہ
جولائی تا مارچ مالی سال 19ء میں پچھلے سال کی اسی مدت کے 13.6 ارب ڈالر کے مقابلے میں جاری کھاتے کا خسارہ کم ہوکر 9.6 ارب ڈالر رہ گیا یعنی 29 فیصد کمی ہوئی۔ اس کمی کا بنیادی سبب درآمدات کمی اور کارکنوں کی ترسیلات ِزر کی بھرپور نمو ہے۔ یہ اثر تیل کی بلند عالمی قیمتوں کی وجہ سے جزوی طور پر زائل ہو گیا۔ نان آئل تجارتی خسارہ جولائی تا مارچ مالی سال 18ء کے 13.7 ارب ڈالر سے گھٹ کر جولائی تامارچ مالی سال 19ء میں 11.0 ارب ڈالر رہ گیا، جس سے جنوری 2018ء میں استحکام کی اب تک نافذ کردہ پالیسیوں کے اثر کی عکاسی ہوتی ہے۔ حالیہ اظہاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ برآمدی حجم بڑھنا شروع ہوگیا ہے، گوکہ ناسازگار نرخوں کی بنا پر مجموعی برآمدی وصولیاں نہیں بڑھی ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق جاری کھاتے میں بہتری اور سرکاری دوطرفہ رقوم کی آمد میں قابل ذکر اضافے کے باوجود جاری کھاتے کے خسارے کی مالکاری میں دشواریاں درپیش رہیں۔ نتیجے کے طور پر ذخائر آخر مارچ 2019ء میں 10.5 ارب ڈالر سے کم ہوکر 10 مئی 2019ء کو 8.8 ارب ڈالر ہوگئے۔ گذشتہ چند دنوں میں طلب و رسد کے حالات کی بنا پر شرح مبادلہ بھی دباؤ میں آگئی۔ اسٹیٹ بینک کے نقطہ نظر سے شرح مبادلہ میں حالیہ اتار چڑھاؤ ماضی کے جمع شدہ عدم توازن کے مسلسل تصفیے اور کسی حد تک طلب و رسد کے عوامل کے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ اسٹیٹ بینک صورت ِحال کا بغور جائزہ لیتا رہے گا اور بازار ِمبادلہ میں کسی قسم کے ناگوار تغیر سے نمٹنے کیلئے ضروری اقدامات کرنے کو تیار ہے۔
محاصل کی وصولی میں کمی، بجٹ سے بڑھ کر سودی ادائیگیوں اور امن و امان سے متعلق اخراجات کی بنا پر جولائی تا مارچ مالی سال 19ء کے دوران مجموعی مالیاتی خسارہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں خاصا بلند رہنے کا امکان ہے۔ زری پالیسی کے نقطہ نظر سے مالیاتی خسارے کا بڑھتا ہوا حصہ اسٹیٹ بینک سے قرض لے کر پورا کیا گیا ہے۔ مطلق لحاظ سے یکم جولائی سے 10مئی مالی سال 19ء کے دوران حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 4.8 ٹریلین روپے قرض لئے جو پچھلے برس کے اسی عرصے میں لی گئی رقم کا 2.4 گنا ہے۔ اس قرض کا بڑا حصہ (3.7 ٹریلین روپے) کمرشل بینکوں سے ہٹاؤ کی عکاسی کرتا ہے جو موجودہ شرحوں پر حکومت کو قرض دینے سے ہچکچا رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں خسارے کی بڑھی ہوئی تسکیک ( monetization) نے مہنگائی کے دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔
زری پالیسی کی حالیہ سختی کے باوجود یکم جولائی تا 10مئی مالی سال 2019ء کے دوران نجی شعبے کے قرض میں 9.4 فیصد اضافہ ہوا۔ قرض میں بیشتر اضافہ خام مال کی اضافی قیمتوں کے باعث جاری سرمائے کیلئے تھا۔ زر ِوسیع (ایم ٹو) کی رسد پر بلند حکومتی قرض اور نجی شعبے کے قرضے کا توسیعی اثر بینکاری شعبے کے خالص بیرونی اثاثوں میں کمی کی وجہ سے جزواً زائل ہوگیا۔ مجموعی طور پر یکم جولائی تا 10مئی مالی سال 2019ء کے دوران زرِ وسیع کی رسد 4.7 فیصد بڑھ گئی۔
صارف اشاریہ قیمت (CPI) سال بسال بنیاد پر مارچ 2019ء میں 9.4 فیصد اور اپریل 2019ء میں 8.8 فیصد بڑھا۔ اوسط عمومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی جولائی تا اپریل مالی سال 19ء میں 7.0 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں 3.8 فیصد تھی۔ مزید برآں، ایندھن کی ملکی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور غذائی اشیا کے بڑھتے ہوئے نرخوں اور خام مال کی اضافی لاگت کی بنا پر گذشتہ تین ماہ میں سالانہ بنیاد پر (annualized)ماہ بہ ماہ عمومی مہنگائی خاصی بڑھی ہے۔ اس طرح مہنگائی کا دباؤ کچھ عرصے تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔ آئی بی اے ایس بی پی کے تازہ ترین اعتماد صارف سروے سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر گھرانے اگلے چھ ماہ کے دوران بلند مہنگائی کی توقع کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا حالات اور اہم شعبوں کے منظر نامے کے پیش نظر اوسط عمومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی مالی سال 19ء میں متوقع طور پر 6.5-7.5 فیصد کی حدود میں رہے گی اور مالی سال 20ء میں اس سے بھی خاصی بلند رہنے کی توقع ہے۔ مالی سال 20ء میں مہنگائی کا یہ منظر نامہ آئندہ بجٹ میں ٹیکسوں میں ردّوبدل، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ممکنہ تبدیلیوں اور تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں تغیر سے ابھرنے والے کئی خطرات سے مشروط ہے جو مہنگائی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ یہ منظرنامہ مستقبل بین (forward-looking) بنیاد پر حقیقی شرح سود میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔