کراچی: ایف پی سی سی آئی کے نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ نجکاری کے عمل میں غیر ضروری سست روی پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین کشیدگی کا سبب بن سکتی ہے جس سے قرضے کی اقساط متاثر ہو سکتی ہیں۔
گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران حکومتوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے وقت نجکاری کی یقین دہانیاں کروائیں مگر سیاسی وجوہات کی وجہ سے ان پر کوئی خاص عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان پر نجکاری کے لئے دباؤ بڑھ رہا ہے مگر دوسری طرف وبا کی وجہ سے خریدار دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ ناکام اداروں کی ٹریڈ یونین بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ جبکہ اپوزیشن اس معاملہ کو اپنے مفادات کے لئے ہوا دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے مطابق 4.9 کھرب کے محاصل جمع کرنا مشکل ہے، جبکہ موجودہ حکومت کے دور میں گردشی قرضہ 1.2 کھرب سے بڑھ کر 2.4 کھرب تک پہنچ چکا ہے۔ اسٹیل ملز، پی آئی اے ریلوے اور دیگر ناکام ادارے بدستور سفید ہاتھی بن کر ملکی وسائل کو روند رہے ہیں۔ جبکہ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں جو اضافہ کیا گیا ہے وہ خسارہ پورا کرنے کے لئے ناکافی ہے۔
ان حالات میں نجکاری پر فوری عمل درآمد ضروری ہے تاکہ حکومت کو وسائل مل سکیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو بجٹ خسارہ بڑھے گا جبکہ ملکی مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ اخراجات آمدنی سے بہت زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کو بڑی کامیابی بتایا جا رہا ہے اور اسے معیشت کے مستحکم ہونے کی علامت قرار دیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت میں اس کے لئے شرح نمو کی قربانی کی دی گئی ہے جس سے بے روزگاری بڑھی ہے جبکہ محاصل میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ مقامی اور غیر ملکی زرائع سے ریکارڈ قرضے لئے گئے ہیں۔