بدقسمتی سے عوام یا سیاسی کارکنان کسی بھی سیاست دان کے پیچھے بغیر سوچے سمجھے بغیر حقائق جانے ایک دوسرے کو مارنے اور مرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں، جذبات میں بہتے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ پاکستان دشمن عناصر ایسے حالات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور پھر اٹھانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ حکومتی اور عسکری ذرائے اس بات پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ ہم سب کو چوکنے رہنے کی ضرورت ہے ہندوستان کیساتھ ہونے والی حالیہ مدبھیڑ ابھی کسی منتقی انجام کو نہیں پہنچی ہے کیونکہ یہ ہم ہی نہیں ساری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر کا مسلۂ حل ہوئے بغیر پاکستان اور ہندوستان کے حالات معمول پر نہیں آسکتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے دیگر داخلی امور کے کاموں کو ترک کر کے بیٹھ جائیں اور ملک کے اندر بیٹھے دوست نما دشمنوں پر نظر رکھنا چھوڑدیں جوکہ اپنی باتوں سے اپنی دشمنی اور دشمن کا آلہ کار ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں داخلی صورتحال خراب کرانے میں ہندوستان کا ہاتھ ہے، پاکستان کے پاس اس بات کہ ٹھوس شواہد موجود ہیں اور جس کی سب سے بڑی دلیل کلبھوشن نامی گرفتار شدہ جاسوس ہے جسے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پاکستان کی سرزمین سے گرفتارکیا اور پھر کلبھوشن کے واشگاف انکشافات بھی گواہی دیتے ہیں کہ وہ پاکستان میں شر انگیزی پہلانے کیلئے آیا تھا۔ نامعلوم افراد پاکستان میں ایک وقت تک بڑے دھڑلے سے کاروائیاں کرتے رہے اور پاکستان کی سرزمین پر رہتے ہوئے پاکستان کو زخم پر زخم لگاتے رہے ۔ پاکستان کو جہاں دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی اور ایک دہشت گرد ملک قرار دلوانے کی بھر پور کوشش کی جاتی رہی ہے۔ دشمن اپنے ان مذموم عزائم میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہماری معیشت بدتر ہوتی چلی گئی ، بین الاقوامی سطح پر ہماری ساکھ کو نقصان پہنچا اور پاکستان رہنے کیلئے خطرناک ملک قرار پایا ۔ ہندوستان کو لگا کہ وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوگیاہے وہ سمجھا پاکستان اب اسکے سامنے جی حضوری کرنے لگے گا گھٹنے ٹیک دیگا اور اپنی بقاء کی بھیک مانگنے لگے گالیکن اسکا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی چکنا چور ہوگیا، جس کی وجہ پاکستان کی عسکری قیادت اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مل کر دشمن کے ناپاک عزائم کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا۔ ایک طرف پاکستان کو انتہائی خطرناک صورتحال کا سامنا تھا تو دوسری طرف ہمارے سیاست دن اپنی سیاسی طاقت میں ملک کو کھوکھلا کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ بھوکا بھوک سے مر رہا تھا ،غریب بیچارہ سیاست دانوں کے پروٹوکول کی وجہ سے مر رہے تھے اور سیاستدان اپنے نزلہ وزکام کا علاج کرانے لندن ، امریکہ اور دبئی قومی خرچے پر جارہے تھے اور معلوم نہیں کیا کچھ ساتھ لے جارہے تھے، آج یہ سارے سیاستدان دنیا کے دیگر ممالک میں اپنی اپنی جائیدادوں کے مالکانہ حقوق رکھتے ہیں ، ملک میں ان کے زیر انتظام ادارے کامیابی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں اور سرکاری ادارے خسارے میں جا رہے ہیں اور سرکاری سبسیڈی پر پل رہے ہیں۔ قرضوں کے بوجھ تلے پاکستان نہیں دبا ہے ، پاکستانیوں اس قرضے کے نیچے ہماری قبریں تیار ہورہی ہیں یہ قرضہ ہم نے نہیں اتارا تو ہم جیل جائینگے ہم بے موت مارے جائینگے کیونکہ یہ قرضہ اتارنے کی ذمہ داری بھی ہماری ہے یہ قرضے ہماری جیبوں سے ادا ہونگے اور قرض کی مد میں آنے والی رقوم کہاں گئیں یہ تو کوئی پوچھنے کا حق نہیں ہے۔
ہندوستان سے کشیدگی و تناؤ کی صورتحال ایک طرف تو دوسری طرف نیوزی لینڈ کاافسوناک سانحہ ہوگیا ،ایسے حالات کا بھرپور تکازہ کر تے ہیں کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کے معزز رہنماء پاکستان کی سالمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سیاسی حکمت عملی وضح کریں اور یہ بات عوام تک واضح طور سے پہنچائیں کہ پاکستان کی سالمیت اور پاکستانیت سب سے مقدم ہے ۔اسلامی دنیا میں پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے اور اسلا م کے قلعے میں اگر چور ڈاکو شور مچائیں گے اور ان کے پیچھے پاکستانی نکلینگے تو پاکستان کو نا صرف اپنی حیثیت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے بلکہ گیدڑ دشمن کو بھی شیر ہونے کا موقع ملے گا۔
قانون بنانے کی کیا ضرورت رہی ہوگی؟ قانون وہ حدیں تعین کرتا ہے جہاں انسان انسانیت کی حدیں پھلانگ کر حیوانیت کے جنگل میں نا چلا جائے۔ دنیا کو انسانوں کیلئے محفوظ جگہ بنانے کیلئے قوانین بنائے گئے اور ان قوانین کی بالادستی نے ملکوں کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کئے کیوں کہ اگر بدعنوانوں کو سزائے نا دی جاتیں تو کوئی بھی ترقی نہیں کرسکتا تھا جہاں چوری اور سینہ زوری کو پذیرائی ملتی گئی وہ ممالک موجود تو ہیں لیکن دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں اور مسلسل تنزلی کے سفر پر گامزن ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں قانون کے نفاذ کو ہمیشہ سے ہی مشکلات کا سامنا رہا ہے، ایک مخصوص طبقہ اپنے مخصوص مقاصد کیلئے قانون میں اپنی مرضی سے توڑ مڑوڑ کرتا رہا اورسب سے بڑھ کر اس بات کو باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ قانون بنانے والے قانون سے بالاتر ہوتے ہیں، بدقسمتی سے ہماری عوام نے اس بات کو بھی دل سے مان لیا ہے۔ نظریاتی سیاست پاکستان میں بہت ہے لیکن نظرئے کیا ہیں انکی وضاحت کرنے سے معذرت کرنا چاہونگا۔ ہمارے سیاستدانوں کو یہ باور کرانے کی ہمیشہ سے ضرورت ہے کہ پاکستان کی سلامتی ہماری ذاتی زندگی سے زیادہ اہم ہے اور آپ تو وہ لوگ ہیں جو دنیا جہان میں پاکستان کے سفیر بن کر گھومتے ہیں۔
توجہ، دھیان اور معاملہ فہمی کا وقت ہے ؛اسلام دشمن عناصر یہ سمجھ چکے ہیں کہ پاکستان وہ ملک ہے جو تمام امت مسلمہ کی ڈھال بنا ہوا ہے، کسی بھی طرح سے اسے کمزور کر دیں ہندوستان کی حکومت کا جہاں مقصد اگلے انتخابات میں کامیابی ہے وہیں اس خطے میں کوئی دوسرا ایسا ملک نہیں ہے جو پاکستان کو اتنا نقصان پہنچا سکتا ہے جسکے لئے اسرائیل اور امریکہ ہندوستان کو استعمال کر رہے ہیں اور کیونکہ ہندوستان کا بھی دیرینہ خواب ہے کہ وہ کم از کم ایشیاء کا ہی سپرپاور بن جائے اور پاکستان اس کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہونے دے گا۔ لیکن اس کیلئے ہماری داخلی پختگی بہت ضروری ہے ہماری سیاسی ہم آہنگی بہت ضروری، غیر ذمہ دارانہ بیانات بھی ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ ہیں، ہر بات کرنے سے پہلے سوچلیں کہ آپ کو کہنے جا رہے ہیں وہ قومی بیانیہ ہے اور دنیا یہ نہیں دیکھے گی کہ کون کہہ رہا ہے وہ تو یہی کہیں گے کہ ایک پاکستانی سیاستدان کہہ رہا ہے۔ جو مشکل آپ پر آئے گی اسے پاکستان جھیلے گا، تو پاکستان کو مشکل میں ڈالنے سے اجتناب کریں اور اپنے بیانئے سوچ اور سمجھ کر جاری کیجئے۔ اپنی قومی اور سیاسی مفادات کی خاطر پاکستان کو داؤ پر نا لگائیں جہاں اس کے حصول کیلئے لاکھوں قربانیاں دی گئیں وہیں اسے سنبھالنے کیلئے اس سے کہیں زیادہ قربانیاں دی جاچکی ہیں۔