سندھ یونیورسٹی انتظامیہ کی شاہ خرچیوں اور 500 سے زائد غیر قانونی بھرتیوں کے باعث جامعہ کا مالی خسارہ ایک ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
سندھ جامعات ترمیمی ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے نا تجربہ کار امیدوار کو ڈائریکٹر فنانس بھرتی کئے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ شیخ الجامعہ کے اہل خانہ کے استعمال میں جامعہ کی گاڑیوں کو فروخت کرنے کے حوالے سے سینڈیکیٹ کے فیصلے کو بھی ہوا میں اڑا دیا گیا۔
درس گاہ کو کرپشن کیلئے استعمال کرنے کے عمل نے سندھ یونیورسٹی کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ گزشتہ برس کی اینٹی کرپشن کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق شیخ الجامعہ فتح محمد بروفت 20 سے زائد افسران نے مالی سال 18-2017 میں73کروڑ85لاکھ93ہزار روپے کی کرپشن کی، جس کے تمام شواہد جمع کراتے ہوئے شیخ الجامعہ و دیگر افسران کے خلاف مالی بدعنوانی کا مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی گئی۔ سندھ یونیورسٹی سینڈیکیٹ کی رکن اور سیکریٹری سندھ یونیورسٹی ٹیچرز ایسو سی ایشن ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے جامعہ انتظامیہ کے خلاف نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے،شیخ الجامعہ کو لکھے گئے خط میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ جامعہ کا مالی خسارہ ایک ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے اور جامعہ انتظامیہ نے سندھ یونیورسٹی ترمیم ایکٹ 2018 کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے کامرس ڈپارٹمنٹ کے فیکلٹی ممبر ڈاکٹر حاکم علی مہیسر کو ڈائریکٹر فنانس بھرتی کرلیا ہے، جو کہ ایم کام تعلیم یافتہ ہے اور انہیں مالی امور کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ڈائریکٹر فنانس کی بھرتی کیلئے دئے گئے اشتہار میں ایم بی اے اکاؤنٹنگ اور 10 سالہ مالی تجربہ قابلیت ظاہر کی گئی ہے،سندھ جامعات ترمیمی ایکٹ 2018 کے مطابق ڈائریکٹر فنانس مستقل افسر ہوگا اور بھرتی کرنے کا اختیار صرف وزیر اعلی کو ہوگا جو سرچ کمیٹی کی جانب سے دئے گئے تین نام میں سے ایک منتخب کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ فیکلٹی ممبر کو اس لئے ڈائریکٹر فنانس لگایا گیا ہے کیونکہ وہ شیخ الجامعہ کے منظور نظر ہیں اور صوبائی حکومت میں بھی ان کا اثر و رسوخ ہے۔ انہوں نے شیخ الجامعہ کو اینٹی کرپشن کی انکوائری دبانے کی یقین دہانی بھی کرا رکھی ہے۔
ڈاکٹر عرفانہ ملاح نےخط میں انکشاف کیا ہے کہ سندھ یونیورسٹی میں صوبائی وزرا، رکن قومی و صوبائی اسمبلی کی منشا کے مطابق تبادلے اور تقرریاں کی جاتی ہیں، جبکہ اس کے بدلے انہیں سیاسی استعمال کیلئے جامعہ کی گاڑیاں اورپٹرول فراہم کیا جاتاہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ شیخ الجامعہ نے فیکلٹی ممبران کی بھرتیوں کیلئے 3 جبکہ غیر افسران بھرتی کرنے کیلئے بھی 3 سلیکشن بورڈ بنائے جن میں جامعہ کراچی کے قریبی دوست و اساتذہ کی بطور ماہرین خدمات لی گئی اور انہی ایم فل و پی ایچ ڈی کے زبانی امتحانات میں ماہر مضمون بلا گیا، جن کا بورڈ آف اسٹڈیز کی منظور شدہ فہرست میں نام شامل ہی نہیں تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ سلیکشن بورڈ کے ذریعے اب تک 550 سے زائد بھرتیاں کی جا چکی ہیں جن میں 150 فیکلٹی ممبران،200 سے زائد ٹیچنگ اسسٹنٹ شامل ہیں۔ جبکہ 200 سے زائد اساتذہ و افسران کو غیر قانونی طور پر ترقیاں دی جا چکی ہیں، جس سے جامعہ میں مالی بحران پیدا ہوا۔
واضح رہے کہ جامعہ کی گزشتہ برس دسمبر میں منعقدہ سینڈیکیٹ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ شیخ الجامعہ کی جانب سے 62 لاکھ روپے سے زائد مالیت میں خریدی گئی ٹیوٹا فارچیونر فوری طور پر فروخت کر کے رقم کو جامعہ کے خزانے میں ڈالا جائے۔ تاہم اس کے بدلے بعد ازاں انہوں نے ٹیوٹا ہائی ایس خرید لی اور سینڈیکیٹ کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔سینڈیکیٹ کی رکن ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے انکشاف کیا ہے کہ شیخ الجامعہ نے دفتر کے بجائےوی سی ہاؤس کو کیمپ آفس بنا رکھا ہے اور انتظامی معاملات وی سی آٖفس کے بجائے وی سی ہاؤس سے چلائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے خط میں لکھا ہے کہ خواتین اساتذہ انتظامی معاملات کیلئے وی سی آفس جانے سے جھجکتی ہیں۔