کراچی: ۤآئی جی سندھ کو اغوا اور پولیس کے کام میں مداخلت کے واقعہ کی تحقیقات کی یقین دہانی کے بعد صوبے کے تمام پولیس افسران نے فی الحال اپنا احتجاج 10 روز کیلئے موخر کردیا ہے۔ گزشتہ روز منگل کو سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران نے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے معاملے میں بے جا مداخلت پر چھٹیوں کی درخواست دے دی تھی۔
صوبائی پولیس کے 2 اے آئی جیز، 7 ڈی آئی جیز اور تمام 29 ایس ایس پی نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس مشتاق مہر کو چھٹیوں کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ اے آئی جی اسپیشل برانچ نے 60 روز کی چھٹی کی درخواست کی تھی۔ تاہم واقعہ کی تحقیقات کی یقین دہانی کے بعد سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران نے چھٹی کی درخواستیں واپس لے لیں۔ اور مزید 10 روز تک کام جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آج بدھ کے روز انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس مشتاق مہر، ایڈیشنل آئی جیز اور ڈی آئی جیز سمیت تمام افسران نے چارج سنبھال لیا۔ جبکہ سندھ پولیس کا مورال بلند رکھنے کیلئے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے پولیس افسران سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس کی صوبے میں امن امان کی بحالی کے لیے بڑی قربانیاں ہیں۔ پولیس نے جان کا نذرانہ پیش کرکے صوبے خاص طور پر کراچی میں امن بحال کیا۔
قبل ازیں منگل گو ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اسپیشل برانچ عمران یعقوب منہاس، اے آئی جی فرانزک سائنس ڈویژن ڈکٹر سمیع اللہ سومرو، ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز ثاقب اسمٰعیل میمن، ڈی آئی جی حیدر آباد نعیم احمد شیخ، ڈی آئی جی غربی کراچی کیپٹن ریٹائرڈ عاصم خان، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد حامد، ڈی آئی جی جنوبی کراچی جاوید اکبر ریاض، ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب، ڈی آئی جی اسپیشل برانچ قمر الزمان، ایس ایس پی انٹیلی جنس اسپیشل برانچ توقیر محمد نعیم، ایس ایس پی شرقی کراچی ساجد عامر سدوزئی، ایس ایس پی اینٹی وائلنٹ کرائم سیل عبداللہ احمد اور ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں نے چھٹیوں کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔
تمام اعلیٰ افسران کی جانب سے انسپکٹر جنرل سندھ پولیس کو لکھی گئی ایک جیسی لیکن علیحدہ علیحدہ درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ کیپٹن (ر) ریٹائرڈ صفدر اعوان کے خلاف حالیہ مقدمے کے اندراج کے معاملے میں کام میں بے جا مداخلت ہوئی اور پولیس کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے پولیس افسران و ملازمین دل برداشتہ اور افسردہ ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دباؤ کے اس ماحول میں پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی مشکل ہے اور اس دباؤ سے نکلنے کے لیے رخصت درکار ہے۔
ادھر مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں کہا تھا کہ جو کراچی میں ہوا وہ ہمارے بیانیے ''ریاست کے اوپر ریاست ہے" کا کھلا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے منتخب صوبائی حکومت کے اختیارات کا مذاق اڑایا، چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا، سنیئر ترین پولیس افسران کو اغوا کر کے زبردستی آرڈر لیے، پاک فوج کو بدنام کیا، جبکہ ایڈیشنل آئی جی پولیس کا یہ خط آئین سے آپ کی بغاوت کا ثبوت ہے۔