اکثر پوچھا جاتا هے کہ بحیثیت خودداری راقم کا پسندیدہ ملک کون سا ہے تو راقم فوراً موجودہ سام راج اوراستعماری طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہونے والے ملک شمالی کوریا کا نام لینا پسند کرتا ہے۔ شمالی کوریا کی عوام ایک باشعور, خوددار اور غیرت مند قوم کیسے بنی اس کا مختصراً احوال یوں ہے؛ اس سے کلیتاً اتفاق نہ بھی ہو لیکن اس دور میں شمالی کوریا کا کردار نہایت اہم ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں خطہ متحده کوریا دو حصوں میں منقسم ہوا جس حصے پر روس کا قبضہ تھا وہ شمالی کوریا کہلایا اور جس پر امریکہ کا قبضہ تھا وہ جنوبی کوریا کہلایا۔
جنوبی کوریا میں جمہوری نظام امریکہ کی آشیر باد پر قائم کر دیا جو اس وقت امریکہ کا اتحادی ملک ہے جب کہ شمالی کوریا کے فوجی جنرل کم جونگ ال نے شمالی کوریا میں اشتمالیت نظام کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھال لی۔ شمالی کوریا میں اشتمالیت نظام نے غربت و استحصال سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں لا سکی۔ راقم الحروف کا شروع میں خیال تھا کہ شمالی کوریائ لوگ اتنے خوددار اور ایک قوم کے حامل کس طرح بن گئے؟ بایں وجه مشرقی معاشرے کے بہت کم ممالک ایسے ہیں جو ایک قوم کی مانند ہیں۔
شمالی کوریا ساڑھے دو کروڑ آبادی کا حامل ملک ہے جس کی صرف فوج 12 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور یہ دنیا کی چوتھی بڑی فوج کہلانے کا اعزاز رکھتی ہے نیز کوریا کے 40 لاکھ عوام نے رضاکارانه طور اپنے آپ کو فوج میں بھرتی کے لئے رجسٹرڈ کروا لیا ہوا ہے تا که جب بھی کوئ دشمن ان کے ملک کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے تو وه بھی میدان کارزار میں عملی طور پر اتر کر حب الوطنیت کے لئے سرخرو هو سکیں، جب کہ اس کے برعکس ہمارے لوگوں کی کثیر تعداد پرتعیش آسائش سے مزین بند کمروں میں سوشل میڈیا پر خام خیالی میں پروۓ ہوۓ بلند و بانگ دعوے کرتے هیں جو حقیقتاً سواۓ کھوکھلا پن کہ کچھ نہ ہے۔ شمالی کوریا کا زیادہ جنون جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں یدطولی حاصل کرنا ہے تاہم شمالی کوریا کی اشتمالی حکومت نے شہری علاقوں میں کچھ حد تک تعمیر و ترقی کی لیکن بعینہ ترقی نہیں ہوئی جس طرح جنوبی کوریا میں ہوئی ہے۔
جنوبی کوریا سرمایہ داروں کا حمایتی ہے اور سرمایہ داروں نے جنوبی کوریا میں کافی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ شمالی کوریا میں مزدوروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور ان پر بعض اوقات ظلم بھی ڈھایا جاتا ہے اور یہ تو ہونا ہی ہے کیوں کہ کسی بھی ملک میں اشتمالی و اشتراکی حکومت ایک مطلق العنان حکومت ہوتی ہے اور یه آمریت کی ایک شکل، بالفاظ دیگر پرولتاریہ طبقہ کی آمریت ہوتی ہے۔ شمالی کوریا میں پیدا ہونے والے نومولود کو یہ درس دیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان، ان کے لئے خدا کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے لئے جانیں قربان کرنے سے کبھی دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ شمالی کوریا کے بچوں اور نوجوانوں کو اسکولوں اور کالجوں میں یہ نصاب پڑھایا جاتا ہے کہ ان کے بدترین دشمن امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں۔ شمالی کوریا ایک قوم پرست ملک ہے جو صرف اپنی تہذیب و تمدن، زبان و ثقافت کو ترجیح دیتا ہے۔ شمالی کوریا میں انگریزی زبان بولنے پر پابندی ہے جس سے کلی اتفاق ہے۔
سب سے بڑھ کر تمام پابندیوں کے باوجود کورین اپنے قدموں پر کھڑے ہیں جو کسی سرمایہ دار ملک کے آگے کاسه لیس نہیں ہوتے ہیں۔ شمالی کوریا کی عوام کو بچپن سے ہی خودداری، قوم پرستی اور حب الوطنی کی سوچ دیتے ہوۓ ایک ایسے راستے پر گامزن کیا جاتا ہے کہ وہ قوم واحدہ بن کر ابھرتے ہیں چہ جائیکہ اس میں کسی حد تک اشتمالی پارٹی کا ڈر اور خوف بھی ہوتا ہے۔ اگر ڈر اور خوف نہ ہو تو لوگ باغی ہو جاتے ہیں۔ راقم کو اٹلی کے آمر مسولینی کی ایک بات کبھی نهیں بھول سکے گی۔ مسولینی نے اٹلی میں فسطائیت قائم کر کے یہ اعلان کیا تھا "
ایک عورت کو بچے کی پیدائش کے لئے زچگی کی جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنا ہی مردوں کو جنگ کی ضرورت ہے" اور اس طرح مسولینی نے لوگوں کو جنگ میں الجھا کر اپنے اقتدار کو دوام بخشا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کو پوری سہولیات و انصاف ملنا چاہیے اور حکومت کا ڈر اور خوف آئین اور قدرتی انصاف کے سنہری اصولوں کے مطابق ہونا چاہے تا کہ لوگ محب وطن رہیں اور یہ اس وقت ہو گا جب ایک سنہری نظام حکومت موجود ہو، وه نظام جو کسی سے متحارب, متضاد اور مخالف نہ ہو، جو خاکروب سے لے کر سربراه حکومت کو فطرت اور قدرت کے اصول کے مطابق یکساں کرنے کی سماجی صلاحیت رکھتا ہو
اور یه تب هو گا جب لوگ ہر موڑ پر خوددار ہوں گے۔
خطہ ملک پاکستان و ہمالیہ ریاست جموں کشمیر کے لوگ خوددار اور دوسروں کی عزت نفس کا پاس پیشه وارانه عصری تعلیم سے نہیں بلکه خوشیاں بانٹنے و ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے اصول پر کاربند کردہ منفرد سوچ سے هوں گے۔