یہ کہا جارہا ہے کہ کم جونگ ان کرونا کا شکار ہوچکے ہیں اور انکی حالت نازک ہے یا وہ اسی وبا کا شکار ہوکر دنیا سے جاچکے ہیں۔
شمالی کوریا کا سرکاری میڈیا سب ٹھیک کی خبر دے رہا ہے لیکن دنیامیں کم جونگ ان کی صحت کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ ان کی شدید بیماری کے ساتھ ان کی موت کے بارے میں بھی خبریں زو پکڑتی جارہی ہیں ۔
شمالی کوریا کے روایتی حریف جنوبی کوریا اور امریکہ نے کہا ہے کہ شمالی کوریا میں ایسی کوئی غیر معمولی سرگرمی نہیں دیکھی گئی جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کم جونگ ان شدید بیمار ہیں یا ان کی موت ہوگئی ہے۔ تاہم جب تک شمالی کوریا حکومت کے زیرکنٹرول میڈیا کوئی اعلان نہیں کرتا اس وقت تک افواہوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اگر یہ افواہیں درست ہیں تو پھر سب سے بڑا سوال یہ ہوگا کہ شمالی کوریا کے سربراہ کی حیثیت سے کِم جونگ ان کی جگہ کون لے سکے گا۔اس سلسلہ میں کئی نام سامنے آرہے ہیں ۔
اول نمبر پر کم جونگ ان کی چھوٹی بہن کم یو جونگ کو شمالی کوریا میں ملک کے نئے رہنما کے لیے پہلی پسند کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔31 سالہ کم یو جونگ نے اپنے بھائی کی طرح سوئٹزرلینڈ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ پولٹ بیورو کی رکن اور ملک کے سب سے اہم پبلسٹی اینڈ موومنٹ ڈیپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انھیں کِم جونگ ان کی 'سیکرٹ ڈائری' کے طور پر بھی شہرت حاصل ہے۔ ایسا خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ کم جونگ ان کے روز مرہ کے کام کاج میں بھی یو جونگ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کو پالیسی معاملات پر بھی مشورہ دیتی ہیں۔ کم یو جونگ 'ماؤنٹ پیکٹو بلڈ لائن' کی رکن بھی ہیں جو کہ کم اِل سونگ کی براہ راست نسل کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور جن کا شمالی کوریا کی سیاست میں اہم کردار رہا ہے۔
دوسرے نمبر پر کم جونگ ان کے بڑے بھائی کِم جونگ چول ہیں۔ ان کے والد نے انھیں شمالی کوریا کے مستقبل کے رہنما کی حیثیت سے تیار کیا تھا لیکن کم جونگ چول نے فوج اور سیاست میں زیادہ جوش و خروش نہ دکھایا تو پھر اس کے بعد کم جونگ ان کو ان کی جگہ دے دی گئی۔
تیسرے نمبر پر ممکنہ امیدوار سابق بیوروکریٹ کم پیونگ ال شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے چچا ہیں یعنی شمالی کوریا کے دوسرے سپریم لیڈر کِم جونگ ال کے سوتیلے بھائی ہیں۔وہ شمالی کوریا کے پہلے سپریم لیڈر کِم اِل سونگ کے بیٹے کی حیثیت سے ماؤنٹ پیکٹو بلڈ لائن کے رکن بھی ہیں۔ ایک زمانے میں انھیں کم جونگ ال کے لیے خطرہ سمجھا جاتا تھا لہذاانہیں 4 دہائیوں تک مختلف یورپی ممالک میں بطور سفیر ملک سے باہر رکھا گیا تھا۔
چوتھے نمبر پر ایک مضبوط امیدوار نائب چیف مارشل چوئے ریونگ ہے کو کم جونگ ان کا دایاں ہاتھ سمجھا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں وہ شمالی کوریا کی پارلیمنٹ سپریم پیپلز اسمبلی کے صدر بھی ہیں۔70سالہ چوئے ریونگ کو ملک کے سب سے طاقتور شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کم جونگ ان کو سربراہ بنانے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا تھا جس کے بدلے میں کم جونگ ان نے انھیں بہت عزت بخشی ہے اور سن2012 میں اقتدار سنبھالنے کے کچھ مہینوں بعد چوئے ریونگ ہے کو بیک وقت متعدد پروموشن ملے۔
اگر کم جانگ ان واقعی دنیا سے چلے گئے تو نئے حکمران کا انتخاب کس طور کیا جاتا ہے اس پر نظر ڈالیں تو سن 1948 میں شمالی کوریا کے قیام کے بعد سے ہی وہاں کِم خاندان کے افراد کی حکومت رہی ہے اور ملک کے نئے سپریم لیڈر کا باضابطہ اعلان شمالی کوریا کی پارلیمنٹ سپریم پیپلز اسمبلی ہی کرتی ہے۔ لیکن ورکرز پارٹی اور ان کے حامیوں کے زیر اثر شمالی کوریا کی پارلیمنٹ کو ربڑ سٹمپ پارلیمنٹ سمجھا جاتا ہے۔ سرکاری طور پر باضابطہ اعلان سے مہینوں قبل ہی کوئی رہنما کا منتخب ہوچکا ہو تا ہے۔
کِم جونگ ان کے والد کم جونگ اِل سنہ 1994 میں شمالی کوریا کے بانی اور اپنے والد کم اِل سونگ کی وفات کے بعد رہنما بنے تھے۔ انھوں نے اپنی حکمرانی کے دوران شمالی کوریا کی سیاست میں کِم خاندان کے اہم کردار کو یقینی بنایا۔انھوں نے ایک ایسا بیانیہ تیار کیا جس میں یہ کہا گیا کہ کِم خاندان کوریائی تہذیب کی پرورش کرنے والے مقدس کوہ آتش فشاں پیکٹو کے عظیم خاندان میں سے ایک ہے۔ انھوں نے اپنے خاندان کو اس مقام پر پہنچا دیا جس کے متعلق یہ عقیدہ بن گیا کہ اس خاندان کے لوگ حکمرانی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
کِم اِل سونگ نے کم جونگ اِل کو اپنا جانشین منتخب کیا۔ اور پھر کِم جونگ اِل نے اپنے بیٹے کِم جونگ ان کو اقتدار سونپ دیا۔کم جونگ ان کی اپنی فیملی ہے لیکن اب تک ان کی کسی اولاد کو عوام میں نہیں دیکھا گیا ہے۔ اور نہ ہی کسی کو اقتدار سنبھالنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ شمالی کوریا کے عوام کم جونگ ان کے بچوں کا نام تک نہیں جانتے۔شمالی کوریا میں کم جونگ ان کی جگہ لینے کیلیے کسی کو بھی ممکنہ رہنما کے طور پر تیار نہیں کیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں کِم کی بے وقت رخصتی سے ایک خلا پیدا ہوگا جس کو پورا کرنا مشکل ہوگا۔