شمالی کوریا کے لوگوں کو ابتداء میں قوم پرست و خوددار بذریعہ ڈر و خوف بنایا گیا جس کا ثمر یہ ملا کہ خودداری اب ان لوگوں کی رگ رگ میں موجود ہے اور وہاں کے لوگ اب اس پر فطرتی طور پر عمل پیرا ہو چکے ہیں۔
شمالی کوریا میں عوام کو من حیث القوم خوددار بنا دیا گیا ہے۔ شمالی کوریا میں ایک قانون ایسا ہے جس کے تحت کسی مرد و عورت کو اپنی مرضی سے سر کے بالوں کو سنوارنے یا بنانے کا اختیار حاصل نہیں ہے نیز فحش و گندی فلمیں دیکھنے پر بھی پابندی عائد ہے اس طرح کے قوانین فطرت کے قانون کے مطابق ہیں۔ بنو امیہ کے سنہری حکمران عمر بن عبدالعزیز کے دور میں لوگوں نے بالوں کی لٹیں اپنے کانوں پر جما رکھی ہوتی تھیں۔
مرد و زن اکٹھے نہاتے تھے اور دیواروں پر فحش تصاویر کندہ کر رکھی تھیں۔اس وقت ان ساری برائیوں سے معاشرے کو پاک کرنے کے لئے عمر بن عبدالعزیز نے پولیس کو حکم دیا کہ آئندہ کوئی بھی شخص سر کے بالوں کی لٹیں جمائی ہوئے آئے تو اس کے بال قینچی سے کاٹ دیئے جائیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے ایسا ہی کیا گیا اور ایسے لوگوں کے بال کاٹ دیئے گئے، دیواروں پر گندی تصویریں مٹا دی گئیں۔ مروان اور عبدالمالک کے عہد میں لوگوں سے چھینی ہوئی زمینیں ایک بار پھر عوام میں بانٹ دی گئیں اور یوں معاشرہ امن کا گہوارہ بن گیا۔
آج اس دور کی جدید ترین مثال شمالی کوریا جیسے اشتمالی ملک میں موجود ہے اور ایسا ہمارے معاشرے میں ہونا چاہیے جہاں مرد و عورت اپنی من مرضی کے ہیئر سٹائل بنا کر مرد عورت کا روپ اور عورت مرد کا روپ دھار رہی ہے۔ داڑھی کے ایسے سٹائلز بنائے جاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ اور پھر ایسے لوگ اپنے آپ کو روشن خیالی کا پرستار سمجھ کر پھولے نہیں سماتے اور اس بنائو سنگھار کی آڑ میں اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے پھرتے ہیں۔
شمالی کوریا میں لوگوں کو ڈر و خوف کی بنیاد پر خوددار بنایا گیا جو آج ان کی فطرت میں شامل ہو چکا ہے۔۔شمالی کوریا کے موجودہ حکمران کے دادا کی نعش کو حنوط کر کے محفوظ کر لیا ہوا ہے جسے وہاں خدا کا درجہ دیا جاتا ہے۔ وہاں کے لوگوں کو بیرون دنیا سے الگ رکھ کر ایک قوم پرست بنایا گیا ہے۔ راقم کو محولہ بالا صورت حال سےاٹلی کے فسطائی حکمران مسولینی کا ایک مقولہ ( مردوں کے لئے جنگ کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی عورت کو بچہ پیدا کرنے کے لئے زچگی کی ضرورت ہوتی ہے۔)۔ ہم مسولینی کے قول کو ذرا نرمی میں مبدل کرتے ہیں( مردوں کے لئے اپنے مذہب، وطن اور معاشرے کی اجتماعی و تعمیری اصلاح کے لئے الفت، احساس و خودداری اتنی ہی ضروری ہے جتنی حاملہ عورت کو زچگی کی ضرورت ہے)۔