کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی) نے برآمدکنندگان اور درآمدکنندگان کی بے بسی پر مایوسی اور تشویش کا اظہار کیاہے کیونکہ شپنگ لائنزنے پچھلے دو ماہ سے زائد عرصے تک رہنے والے لاک ڈائون کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کنٹینر ڈی ٹینشن چارجز اور بھاری جرمانے عائد کرکے ان کا استحصال کررہی ہیں۔
لاک ڈائون کی طویل مدت اور صنعتوں کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کی بندش کی وجہ سے درآمدکنندگان کسٹمز سے اپنا مال کلیئر کروانے سے قاصر رہے اور فری مدت گزرنے کے بعد بھی اپنا درآمدی مال نہیں اٹھاسکے جس کے نتیجے میںشپنگ لائنز کے ایجنٹس جرمانے کی مد میں یومیہ 150ڈالر سے 250ڈالر فی کنٹینر چارجز وصول کررہے ہیں جو کہ دیگر صوابدیدی چارجز اور جرمانوں کے علاوہ ہیں۔مزید برآں زرمبادلہ کے ضوابط کویکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپریل اور مئی2020میں 159 تا 161روپے کے سرکاری ریٹ کے برخلاف ڈالر کے بدلے 167سے168روپے فی ڈالر وصول کیے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی بندرگاہیں پورے خطے کے مقابلے میں کافی غیر منظم ہیں جہاں واضح رہنما اصول نہ ہونا، ریگیولیٹری فریم ورک کا فقدان یا کنٹینر ڈی ٹینشن، ٹرمینل ہینڈلنگ چارجز( ٹی ایچ سی ) اور دیگر متفرق چارجز کو وصول کرنے کے لئے مخصوص نرخنامہ نہ ہونے کی وجہ سے ناجائز اور غیر قانونی چارجز وصول کئے جاتے ہیں۔وزارت بحری امور نے موجودہ حکومت کے دو سالوں میں شپنگ لائنز اور ان کے ایجنٹس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے شاید ہی توجہ دی ہو۔
کسٹمز ایکٹ 1969 اور متعلقہ قواعد میں بعض دفعات کسٹمز حکام کو شپنگ لائنز کے امور کو ریگولیٹ کرنے اور ان کے چارجز پر نظر رکھنے کے اختیار دیتے ہیں لیکن کورونا وبا کے باعث غیر معمولی بحران میں ایف بی آر اور کسٹمز پریوینٹیو درآمد کنندگان کو اور پاکستان کے معاشی مفادات کو بچانے میں ناکام رہے ہیں۔
درآمدکنندگان اور کلیئرنگ ایجنٹس کو یہ صوابدیدی چارجز بلامقابلہ ادا کرنے پر مجبورکیا جارہاہے کیونکہ ایک دن کی تاخیر سے درآمدی مال کی لاگت میںاضافہ ہوجاتا ہے اور ایسی مثالیں بھی ملی ہیں جن میں ڈی ٹینشن چارجز اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ وہ مال کی اصل لاگت سے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور پھر کسٹمز حکام کو واجبات وصول کرنے کے لیے مذکورہ مال کی نیلامی کرنی پڑتی ہے۔
خام مال درآمد کرنے والے درآمدکنندگان اور صنعتوں کی پریشانی مزید اُس وقت بڑھ جاتی ہے جب نجی ٹرمینل آپریٹرز کو واجب ادابھاری ڈیمرج کا سامنا ہوتا ہے ۔یہ ٹرمینل آپریٹرز وزارت بحری امور اور کے پی ٹی کی جانب سے درآمدکنندگان کو رعایت دینے کی واضح احکامات کی سخت مزاحمت کررہے ہیں۔
تاہم بعدازاں چیئرمین کے پی ٹی ریئر ایڈمرل جمیل اختر کے ساتھ ساتھ بزنس مین گروپ کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے پی ٹی بورڈ آف ٹرسٹیز سراج قاسم تیلی اور کراچی چیمبر کے صدر آغا شہاب احمد خان کی مداخلت کے بعد کے پی ٹی، ٹرمینل آپریٹرز اور ایسے درآمدکنندگان جن کی نمائندگی کے سی سی آئی کررہا ہو ان کے درمیان ایک مصالحتی فارمولے طے پایا جس کے تحت نجی ٹرمینل آپریٹرز اضافی فری دنوں کی اجازت دیں گے۔اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ ایسے درآمدکنندگان جو اپنے کنٹینرز یا ایل سی ایل کارگو کی ڈیلیوری پہلے ہی لے چکے ہیں انہیں اضافی فری دنوں کے بدلے پہلے سے ادا کیے گئے ڈیمرج چارجز واپس کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میںاگلے دو یا تین دنوں میں نوٹیفیکیشن کی توقع کی جارہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کو غیر ملکی شپنگ لائنز اور غیر ملکی ٹرمینل آپریٹرز نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ پاکستان کی بیرونی تجارت اور مقامی صنعت کو ان شپنگ لائنز، ایجنٹس اور ٹرمینل آپریٹرز نے یرغمال بنایا ہوا ہے جس کے نتیجے میں کاروباری لاگت میں بے انتہا اضافہ ہوتا جارہاہے۔خطے میں حتی کہ بھارت سمیت کہیں بھی ایسے بندرگاہ حکام اور جہاز رانی کی وزارتیں نہیں جنھوں نے شپنگ لائنز اور ٹرمینل آپریٹرز کو درآمدکنندگان اور برآمدکنندگان کو اس طرح آزادانہ طور بلیک میل کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہوئی ہو۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری وزارت بحری امور، فیڈرل بورڈ آف ریونیو،کسٹمز حکام ، نجی ٹرمینل آپریٹرز اور شپنگ لائنز سے التجا کر تا چلا آرہا ہے کہ وہ عقلمندی اور اخلاقیات کا مظاہرہ کریں اور ڈی ٹینشن، ڈیمرج چارجز معاف کریں جو کورونا وبا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈائون کے دوران جمع ہوتے چلے گئے لیکن یہ تمام اپیلیں اور درخواستیں بے سود ثابت ہوئیں اور نہ توشپنگ لائنز اور نہ ہی ٹرمینل آپریٹرز نے کوئی رعایت دی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان شپنگ لائنز نے بھارت میں بھارتی وزارت جہاز رانی کے حکم پر بلاکسی تاخیر درآمدکنندگان کو فراخدلی سے رعایت دی۔بعض معاملات میں بھارت میں شپنگ لائنز کے لائسنس منسوخ کیے گئے جنہوں نے لاک ڈاو
¿ن کے دوران ڈی ٹیشن چارجز معاف کرنے سے انکار کیا تھا۔
وزارت بحری امور اور ایف بی آر قانون و آئین کو نافذ کرنے میں بے بس نظر آتے ہیں جن کو ایسے ہنگامی حالات میں نافذ کیا جاسکتا ہے اور پاکستان کی پوری تجارت و صنعت کو انتہائی ضروری ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے ۔کے سی سی آئی نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ شپنگ لائنز اور نجی ٹرمینل آپریٹرز نے گزشتہ کئی سالوںسے اربوں روپے بنائے اور غیر ملکی کرنسی کی صورت میں لے گئے لیکن بدترین بحرانی صورتحال میں انہوںنے پاکستان کی تجارت و صنعت کو بچانے اور مدد کرنے سے صاف انکار کردیا بلکہ انہوںنے سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی معیشت کی قیمت پر غیر متوقع اور ناجائز فائدہ اٹھایا۔
کے سی سی آئی اور دیگر ٹریڈ باڈیز نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ذریعے 2015میں شپنگ لائنز اور ایجنٹس کے استحصالی حربوں کو ختم کرنے کے لیے کوشش کی تھی اور 4دسمبر2015کو ایک ایس آر او کا مسودہ جاری کیا گیا جس میں کسٹمز قواعد 2001کے تحت ایک نئے باب ” شپنگ ایجنٹس رولز (چیپٹر XXVI) شامل کیا گیا تھا۔اس کے تحت شپنگ ایجنٹس کوبل آف لیڈنگ میں مخصوص چارجز کے علاوہ دیگر چارجز عائد کرنے سے روکا گیا تھا جبکہ شپنگ لائنز پر درآمدکنندگان کے جمع کئے گئے سیکیورٹی ڈیپازٹ کو کیش کروانے پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔
ایس آر او میں 592 رول کے تحت شقوں ( پی)، (کیو) اور ( آر) کے تحت نئی دفعات فراہم کی گئیں جوکاروباری لاگت کو کم کرتے ہوئے پاکستان کے بہتر معاشی مفاد اور تجارت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کافی تھیں۔ تاہم اس ڈرافٹ ایس آر او نے کبھی دن کی روشنی نہیں دیکھی اور اس کی قسمت کا کچھ نہیں پتہ۔
کے سی سی آئی نے اسی لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو،وزارت خزانہ اور وزارت تجارت سے مطالبہ کیا کہ یہ ایس آر او بحال کیا جائے اور مسودہ میں بیان کردہ نئے باب اور قواعد کو ایس آر او میں شامل کیا جائے تاکہ تجارت وصنعت کے استحصال کا خاتمہ کیا جاس