تاریخ میں وہی حکمران اچھے الفاظ میں یاد کیے جاتے ہیں جو اپنے رعایا کی فلاح و بہبود کا خیال رکھتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ایک ایسے بادشاہ کا ذکر ملتا ہے کہ اگر ترازو کے ایک پلڑے میں اس بادشاہ کے مختصر سے دورِ حکومت کو رکھا جائے اور دوسرے پلڑے میں پوری مغل سلطنت کو تب بھی اس بادشاہ کا پلڑا بھاری ہی رہے گا۔
ہندوستان کے ایک قابل ترین اور انصاف پسند فرمانروا شیر شاہ سوری نے مغل بادشاہ بابر اور اس کے بیٹے ہمایوں کے درمیان صرف پانچ سال ہندوستان پر حکومت کی اور ان پانچ سالوں میں شیر شاہ سوری نے عوامی خدمات اور فلاحی منصوبوں کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ آج صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی ان کے اثرات ہندوستانی تہذیب میں جوں کہ توں موجود ہیں۔ کچھ لوگ شیر شاہ سوری کو مغلوں کا غدار کہتے ہوئے ان پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ شیر شاہ سوری نے دوسرے مغل بادشاہ ہمایوں سے حکومت چھین کر اسے دربدر کر دیا تھا۔
لیکن اس دور میں تخت و تاج حاصل کرنے کا یہی رواج تھا کہ جو زیادہ طاقتور، جرات مند اور اہل ہوتا وہی عنان حکومت سنبھالتا۔ جبکہ مغل بادشاہ ہمایوں کسی شعبے میں شیر شاہ سوری کی برابری نہ کر سکتا تھا۔ پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر میں یہ تمام جوہر موجود تھے تب ہی تو وہ فرغانہ سے چل کر آیا اور دہلی پر قابض ہو گیا۔ جو حق بابر کو حاصل تھا وہی شیر شاہ سوری کو بھی حاصل تھا، لہٰذا اس نے اپنے حق حاصل کر لیا۔
شیر شاہ سوری کی پیدائش 1486 عیسوی میں ہوئی اور ان کا اصل نام فرید خان تھا۔ ان کے والد کا نام حسن خان سوری تھا۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق افغان قبیلے سور سے تھا۔ 1451 عیسوی جب دہلی میں لودھی خاندان کی حکومت قائم ہوئی، لودھی جو نسلاً افغانی تھے انہیں دیکھتے ہوئے بہت سے افغان سردار اچھے مستقبل کی تلاش میں دہلی آن پہنچے۔ انہی سرداروں میں سے ایک شیر شاہ سوری کے دادا ابراہیم سوری بھی تھے۔
بعد ازاں شیر شاہ کے والد حسن خان کو سکندر لودھی نے بہار کے علاقے سہسرام کی جاگیر عطا کی۔ فرید خان یعنی شیر شاہ سوری اپنے والد کے آٹھویں فرزند تھے۔ اپنی سوتیلی ماں کی نفرت اور سنگدلانہ رویے کے سبب فرید خان بچپن ہی میں اپنے گھر سے فرار ہوئے اور جونپور کے نواب کے ہاں ملازمت اختیار کر لی۔ یہاں رہتے ہوئے آپ نے اپنی تعلیم مکمل کی اور فنون سپاہ گری میں بھی مہارت حاصل کی۔
اپنی بے چین طبیعت کے سبب فرید خان نے یہاں سے بھی کوچ کیا اور اب بہار کے نواب خان لوہانی کے ہاں ملازمت اختیار کی۔ اسی ملازمت کے دوران اپنے آقا کی جان بچاتے ہوئے فرید خان کا سامنا ایک شیر سے ہوا، اس بہادر نوجوان نے تن تنہا اس شیر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
نواب خان لوہانی نے تبھی سے آپ کو شیر شاہ کا لقب عنایت کیا اور انہیں اپنے قابل بھروسہ ساتھیوں میں شمار کرتے ہوئے اپنے بیٹے شہزادے جمال خان کا اتالیق مقرر کر دیا۔ جب ہندوستان میں مغلوں کی آمد اور لودھی خاندان کا خاتمہ ہوا تب شیر شاہ سوری مغلوں کی جنگی مہارت سے متاثر ہو کر بابر کی فوج میں شامل ہو گئے۔
شیر شاہ سوری کی اعلیٰ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے مغل بادشاہ بابر نے اسے سہسرام کا نظم و نسق سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ شاہی دعوت کے موقع پر شیر شاہ سوری نے بادشاہ بابر کے سامنے سے گوشت کا ٹکڑا کھینچا اور بلاتکلف اسے کاٹ کاٹ کھانے لگا۔ بابر کو یہ سخت ناگوار گزری۔
بابر بڑا مردم شناس تھا۔ دعوت کے خاتمے پر بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو سمجھایا اس شخص شیر شاہ سوری سے بہت محتاط رہے۔ تبھی سے مغلوں اور شیر شاہ سوری کے تعلقات کشیدہ رہنے لگے۔ شیر شاہ کی آزاد طبیعت بابر کی ماتحتی زیادہ عرصہ برداشت نہ کر سکی۔
چنانچہ شیر شاہ واپس بہار لوٹ آئے، اب نواب خان لوہانی کی جگہ شہزادہ جمال نواب بن چکا تھا، لیکن وہ اول درجے کا نااہل ثابت ہوا جس کے سبب تمام نظام سلطنت شیر شاہ سوری نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ شیر شاہ کے اس اقدام کے باعث نواب بنگال محمود شاہ نے شیر شاہ سوری کے خلاف کاروائی کرنا چاہی، لیکن اسے بھی ہزیمت اٹھانی پڑی۔
اب شیر شاہ کی جنگی قوت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا۔ ان حالات کی خبریں جب مغل بادشاہ ہمایوں تک پہنچیں تو وہ شیر شاہ سے مقابلے کلیے آن پہنچا، لیکن وہ بھی شیر شاہ سوری کی جنگی قابلیت کے سامنے نہ ٹک سکا اور مجبوراً صلح کر کے واپس لوٹ گیا۔ کچھ عرصہ اس صلح پر قائم رہنے کے بعد شیر شاہ سوری نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا اور سلطان العادل کا لقب اختیار کیا۔
اب مغل بادشاہ ہمایوں نے 1540 عیسوی میں دوبارہ شیر شاہ سوری پر حملہ کیا اور ایک بڑی شکست سے دوچار ہوا۔ اس شکست کے بعد سارا شمالی ہند کا علاقہ شیر شاہ سوری کے زیر تسلط آگیا اور بادشاہ ہمایوں اپنی جان بچا کر بھاگنے پر مجبور ہوا۔ شیر شاہ سوری کو حکومت کرنے کے لیے بہت ہی کم وقت نصیب ہوا اور اس دوران بھی وہ مختلف جنگی مہموں اور بغاوتیں کچلنے میں مصروف رہا۔ ان تمام تر باتوں باوجود شیر شاہ سوری کے فلاحی کارنامے ہندوستان کے کسی بھی فرمانروا سے کہیں زیادہ ہیں۔
جن میں سب سے بڑا کارنامہ شاہراہ اعظم ’’جرنیلی سڑک‘‘ جسے موجودہ دور میں ’’گرانڈ ٹرنک روڈ‘‘ (جی ٹی روڈ) کہا جاتا ہے کی تعمیر ہے۔ یہ جو آج انڈیا اور پاکستان میں روپیہ نامی کرنسی کا چلن عام ہے اسے متعارف کروانے والے بھی شیر شاہ سوری ہی تھے۔ اس کے علاوہ سلطنت میں امن و امان قائم کرنا، تجارت کو فروغ دینا، کسانوں کو سہولیتیں فراہم کرنا، ڈاک کے نظام کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ شیر شاہ سوری کا سب سے بڑا کارنامہ تمام ریاست میں عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنا تھا۔
شیر شاہ سوری کا عہد نامہ نامی کتاب میں ان کی منصف مزاجی کا ایک ایسا قصہ درج ہے جسے سن کر پوری سلطنت کانپ اٹھی تھی۔ جبکہ یہ واقعہ انگریز مورخ الفنسٹن نے بھی اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے:
ایک بار سلطان شیر شاہ سوری کا بیٹا محمد شاہ عادل ہاتھی پر بیٹھا آگرہ کی گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک حسین و جمیل دوشیزہ اپنے غسل خانے میں نہا رہی ہے۔ شہزادہ اس منظر میں ایسا محو ہوا کہ ہاتھی وہیں روک کر کھڑا ہو گیا، اور ایک اوباش کی طرح اپان کا بیڑہ اٹھا کر اس کے جسم پر مارا۔ وہ مہاجن کی بیوی اور ایک حیا دار خاتون تھی۔
جب اس نے یہ تمام منظر دیکھا تو وہ خود کشی کی جانب راغب ہوئی۔ لیکن اس کے شوہر نے اسے روک لیا اور وہ شکایت لے کر بادشاہ شیرشاہ سوری کی عدالت میں جائے گا۔ دربار لگا ہوا تھا، مہاجن نے بھرے دربار میں جا کر دہائی دی اور شہزادے کی بے باکی کا یہ تمام واقعہ کہہ سنایا۔
یہ سنتے ہی شیر شاہ سوری سخت غضبناک ہوئے اور حکم جاری کیا کہ یہ مہاجن ہاتھی پر بیٹھ محمد شاہ عادل کے گھر جائے اور اس کی بیوی یعنی خود شیر شاہ سوری کی بہو کو برہنہ کر کے اس کے سامنے لایا جائے اور یہ مہاجن بھی اس کی طرف پان کا بیڑہ پھینکے۔ یہ حکم سن کر پورا دربار کانپ اٹھا، امراء اور اراکین نے شہزادے کی ناموس کی خاطر سفارشیں کیں لیکن شیر شاہ سوری کا حکم اٹل تھا۔
وہ مجرموں پر بالکل بھی نرمی کرنے کا روادار نہ تھا۔ جب مہاجن نے عدل و انصاف پر مبنی یہ فیصلہ سنا تو وہ شیر شاہ سوری کے قدموں میں گر پڑا اور درخواست کی کہ میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوتا ہوں۔ اس واقعے کے بعد تمام ملک میں کسی زور آور کی ہمت نہ ہوتی کہ وہ کسی کمزور پر ظلم ستم ڈھائے۔
1545 عیسوی ایک جنگی مہم کے دوران بارود خانے میں آگ لگنے کے باعث سلطان شیر شاہ سوری نے وفات پائی۔ افسوس کے سوری خاندان کو آپ کے بعد کوئی لائق جانشین نصیب نہ ہو سکا۔ کچھ ہی عرصے مغل بادشاہ ہمایوں نے سوری سلطنت پر حملے کرکے دوبارہ مغل سلطنت ہندوستان میں بحال کر دی۔