نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ تھی، کبھی گھر میں آٹا گوندھ دیتے، گھر کی دیگر ضروریات پوری کرتے، حضرت عائشہؓ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں معمولات کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ: ”اپنے سر سے جوئی نکالتے، اپنی بکری کا دودھ دوہتے، اپنے کپڑے سی لیتے، اپنی خدمت خود کرلیتے، اپنے جوتے سی لیتے اور وہ تمام کام کرتے جو مرد اپنے گھر میں کرتے ہیں، وہ اپنے گھر والوں کی خدمت میں لگے ہوتے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو چھوڑ کر چلے جاتے (ترمذی: باب مما فی صفۃ اوانی الحوض: حدیث: ۲۴۸۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رحم وکرم نہ صرف ازواج کے ساتھ مخصوص تھا، بلکہ پوری صنف نازک کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین برتاؤ کا حکم کیا، قبل از اسلام عرب میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا، لڑکی کی پیدائش کو باعث ننگ وعار باور کیا جاتا، جیسا کہ قرآن مجید نے خود اس کی منظر کشی کی ہے ”وَاِذَا بُشِّـرَ اَحَدُهُـمْ بِالْاُنْـثٰى ظَلَّ وَجْهُهٝ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِيْـمٌ، یَتَوَارَیٰ مِنَ القَومِ مِن سْوء ِ مَا بْشِّرَ بِہ“ (سورۃ النحل: ۵۸)
ترجمہ: جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا، لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس برائی کی خوشخبری کے سبب سے جو اسے دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف عورت کو جینے کا حق دیااور اس کو معاشرہ میں بلند مقام عطا کیا، بلکہ عورت کے وجود کو خیر وبرکت کا باعث او رنزول رحمت کا ذریعہ اور اس کی نگہداشت اور پرورش کو دخولِ جنت کا ذریعہ بتایا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں، پھر جب تک وہ اس کے پاس رہیں یا یہ ان کے پا س رہے اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو وہ دونوں بیٹیاں اس کو ضرور جنت میں داخل کرادیں گی (ابن حبان: باب ما جاء فی الصبر والثواب، حدیث:۲۹۴۵)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے دو لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی وہ شخص اور میں جنت میں اس طرح اکٹھے داخل ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں۔ یہ ارشاد فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ فرمایا۔ (ترمذی:باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات والاخوات، حدیث: ۱۹۱۴)
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ان بیٹیوں کے کسی معاملہ کی ذمہ داری لی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ کی آگ سے بچاؤ کا سامان بن جائیں گی (بخاری: باب رحمۃ الولد، حدیث:۵۹۹۵)
عورتوں کی کوتاہیوں سے درگذر کا حکم
نہ صرف یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ بہترین سلوک اور برتاؤ کا حکم دیا، بلکہ اس کی کمی کمزوری اور خاص مزاجی کیفیت کی وجہ سے پیدا ہونے والی تکالیف کو انگیز کرنے کی بھی تاکید فرمائی:
اسی کو اللہ عز وجل نے یوں فرمایا: وَعَاشِرْو?ھْنَّ بِال?مَع?رْو?فِ، فَاِن? کَرِھْتْمْو?ھْنَّ شَے?ئاً فَعَسَیٰ?َن? تَک?رَھْو?ا شَے?ئاً وَیَج?عَلْ اللّٰہْ فِی?ہِ خَی?راً کَثِی?راً“(النساء: ۱۹)اور ان عورتوں کے ساتھ حسن وخوبی سے گذر بسر کرو اور اگر تم کو وہ ناپسند ہو ں تو ممکن ہے کہ تم ایک چیز ناپسند کرو اور اللہ تعالی اس کے اندر بڑی منفعت رکھ دے۔
اسی کو ایک روایت میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت کو اس لیے مبغوض نہ رکھے کہ اس کی کوئی عادت ناگوارِ خاطر ہے، اس لیے کہ اگر ایک عادت ناپسند ہے تو ممکن ہے کوئی دوسری عادت پسند آجائے (مسلم: باب الوصیۃ بالنساء، حدیث: ۱۴۶۹)
ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ خصوصیت سے رحم و کرم کا معاملہ فرمایا، اس کی صنفی نزاکت کو ملحوظ رکھ کراس کے ساتھ رحم وکرم کرنے کا حکم دیا، اس پر بار اور مشقت ڈالنے سے منع فرمایا، اس پر بے جاسختی سے روکا۔
اس کو قعر مذلت سے نکال عزت ووقار کا تاج پہنایا، ماں، بہو، ساس، بیوی وغیرہ کی شکل میں اس کے حقوق عنایت کیے، اس کی تعظیم واکرام کا حکم کیا، اس کی پرورش وپرداخت اور اس کی نگرانی اور دیکھ بھال کو جنت کا وسیلہ اور ذریعہ فرمایا، یہ صنف نازک کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کریم کا طرز وعمل تھا۔