اسلام آباد: سپریم کورٹ نے دریاؤں، نہروں کے کنارے پر شجر کاری سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران بلین ٹری سونامی منصوبے کا نوٹس لیتے ہوئے اس حوالے سے تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، اس دوران وفاقی و صوبائی سیکریٹریز جنگلات، ایڈووکیٹ جنرل اور عدالت کے طلب کرنے پر سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران عدالت نے 10 ارب درخت لگانے سے متعلق حکومت نے بلین ٹری سونامی منصوبے کا نوٹس لیتے ہوئے منصوبے سے متعلق تمام تفصیلات طلب کرلی۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ملک میں جنگلات کی بحالی کے لیے 5 برس کے عرصے میں 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے کا آغاز کیا تھا۔
عدالت عظمیٰ میں سماعت شروع ہوئی تو مذکورہ معاملے پر سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی کو فوری طور پر طلب کیا گیا اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی 10ارب درخت منصوبے کا سارا ریکارڈ لے کر آئیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ماحولیات سے پوچھا کہ اسلام آباد میں 5 لاکھ درخت کہاں لگائے گئے ہیں، اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں، آپ نے سارے درخت بنی گالہ میں ہی لگائے ہوں گے، جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اس معاملے پر تمام تفصیلات عدالت میں جمع کرائیں گے۔ ان کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ بڑی مغرور ہے، اگر توہین عدالت کا نوٹس ملا تو ساری جمع پونجی ختم ہوجائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں درخت کٹ رہے ہیں، کشمیر ہائی وے پر بے ترتیب درخت لگے ہیں، درخت خوبصورتی کے بجائے بدصورتی پیدا کررہے ہیں، درخت قوم کی دولت اور اثاثہ ہیں لیکن اسلام آباد سے کراچی تک جائیں، دریا کنارے کوئی جنگل نہیں۔
عدالت پوچھا کہ خیبرپختون کا بلین ٹری سونامی کہاں ہے، صوبے میں لاکھوں درخت کاٹے جاتے ہیں، نتھیا گلی میں درخت کٹ رہے ہیں، ناران کاغان کچرا بن گیا ہے، کمراٹ، مالم جبہ، پشاور کہیں درخت نہیں؟ جس پر ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے بتایاکہ مجموعی طور پر 73 لاکھ درخت لگائے ہیں اور 3 کروڑ 90 لاکھ لگانے کا پلان ہے۔