نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ کے متنازع زرعی قوانین پر عمل درآمد کو عارضی طور پر معطل کرنے کا فیصلہ عالمی طور پر احتجاجی کسانوں کی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم بھارتی کسانوں نے زرعی قوانین سے متعلق تجاویز دینے کیلئے قائم کردہ کمیٹی کی غیر جانبداری پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔
کسانوں خصوصاً سکھ کاسشت کاروں کا دو ٹوک مؤقف ہے کہ جب تک تینوں متنازع زرعی قوانین واپس نہیں لئے جاتے وہ اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے۔ آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈی نیشن کمیٹی (اے آئی کے ایس سی سی) نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو بعض قوتوں نے گمراہ کیا ہے۔
اے آئی کے ایس سی سی کی طرف سے عدالتی حکم کے تناظر میں جاری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ کون لوگ تین زرعی قوانین کی حمایت کرتے ہیں اور وہی لوگ سپریم کورٹ کی سفارشات دینے والی کمیٹی کا بھی حصہ ہیں۔
دریں اثنا عدالت نے حکم دیا ہے کہ ماہرین پر مشتمل آزاد کمیٹی قائم کی جائے جو نئے قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ مذاکرات کرے۔ عدالت نے قرار دیا کہ زرعی قوانین خاطر خواہ مشاورت کے بغیر منظور کیے گئے۔ عدالت نے حکومت نمائندوں اور کسان رہنماؤں کے درمیان ہونے والے مذاکرات پرکے طریقہ کار پر بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شرد اروندبوبڑے نے کہا کہ ماہرین کی آزاد کمیٹی حکومت کے اور کسانوں کے درمیان تعطل کو اچھے طریقے سے ختم کروائے۔ مقدمے کی منگل کو ہونے والی اہم سماعت کے دوران جسٹس بوبڑے نے کہا کہ فریقین کے درمیان موجود تعطل کی وجہ سے کسان متاثر ہورہے ہیں۔
انہوں نے حکومت کی نمائندگی کرنے والے بھارت کے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگرکوئی گڑ بڑ ہوئی ہم سب اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ واضح رہے کہ تعطل کے خاتمے کے لیے کسانوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے 9 دور ہو چکے ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔