کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہاؤسنگ اور تعمیراتی فنانس کو فروغ دینے کیلئے مسلسل سازگار ضوابطی ماحول فراہم کر رہا ہے۔ یہ ایک اہم شعبہ ہے جس کے معیشت کے دیگر شعبوں سے اہم معاشی روابط ہیں اور اس شعبے میں قرضے کی فراہمی کی موجودہ سطح بہت کم ہے۔ یہ سطح جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی نیچے ہے جو ہم جیسے دیگر ممالک اور خطے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
اس شعبے میں فنانس کی فراہمی کو تقویت دینے اور خصوصاً سستی ہاؤسنگ مہیا کرنے میں سہولت دینے کے لیے اسٹیٹ بینک نے اب بینکوں کو کم لاگت اور سستی ہاؤسنگ فنانس مہیا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے پانچ ضوابطی رعایات کا اعلان کیا ہے۔
اوّل، بینکوں کے لیے موجودہ ضوابط میں استعمال کردہ کم لاگت ہاؤسنگ فنانس کی تعریف ہاؤسنگ فنانس کے لیے ٹیئرز I اور II کے تحت حکومت کی مارک اپ فیسلٹی فار ہاؤسنگ فنانس میں استعمال کی جانے والی تعریف سے ہم آہنگ کردی گئی ہے۔ خصوصاً اسٹیٹ بینک کے ضوابط میں ہاؤسنگ یونٹ کی قیمت 3 ملین روپے سے بڑھا کر 3.5 ملین روپے کردی گئی ہے جبکہ قرضے کا زیادہ سے زیادہ حجم 2.7 ملین روپے سے بڑھا کر 3.15 ملین روپے کردیا گیا ہے۔
نتیجے کے طور پر بینکوں کے لیے کم لاگت ہاؤسنگ فنانس کی ترغیب بڑھ جائے گی کیونکہ وہ نہ صرف حکومت کی مارک اپ سبسڈی سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں گے بلکہ اسٹیٹ بینک کی کم لاگت ہاؤسنگ فنانس کے تحت ضوابطی ترغیبات سے بھی فائدہ حاصل کرسکیں گے۔
موجودہ ضوابط اور بینکاری طور طریقوں کے تحت بینکوں کے لیے آمدنی کے دستاویزی شواہد حاصل کرنا ضروری ہے۔ ان معلومات کی فراہمی ان لوگوں کے لیے مشکل ہوتی ہے جو غیر رسمی ذرائع سے روزی کما رہے ہوں جو عموماً کم آمدنی والے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طبقے کو فنانسنگ کی سہولت فراہم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک بینکوں پر زور دے رہا ہے کہ آمدنی کے ذرائع کا تعین کرنے اور قرض لینے والے کی حصول قرضہ کی اہلیت (credit worthiness) جانچنے کے لیے متبادل طریقے استعمال کریں۔
دوسری اور تیسری قسم کی رعایات اس طبقے کو فنانسنگ فراہم کرنے کے لیے دی جارہی ہیں۔ چنانچہ دوسری رعایت کے تحت، کم لاگت ہاؤسنگ فنانس کے حوالے سے، جہاں بینک ’انکم پراکسیز‘ استعمال کررہے تھے اور جہاں قرض لینے والے کی آمدنی قابل تصدیق نہیں، بینکوں کو قرض کے بوجھ کا تناسب (Debt Burden Ratio) یا ڈی بی آر کا حساب لگانے کے لیے ’قابل تصدیق‘ آمدنی استعمال کرنے کی شرط سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ چنانچہ ’ناقابل تصدیق آمدنی‘ والے قرض گیر جن کی آمدنی کا حساب بینک ’انکم پراکسیز ‘کے ذریعے لگاتے ہیں، وہ بھی کم لاگت ہاؤسنگ فنانس حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔
سوم، کم لاگت ہاؤسنگ فنانس کے حوالے سے بینکوں کو ڈی بی آر کی شرط سے ان صورتوں میں بھی مستثنیٰ کردیا گیا ہے جہاں بینک ’ری پیمنٹ سروگیٹس‘جیسے کرایہ، یوٹیلٹی بلز، ٹیلکوز بلز وغیرہ استعمال کررہے ہیں ۔ لہٰذا وہ قرض گیر جو قابل تصدیق آمدنی نہیں رکھتے یا جن کی آمدنی ناقابل تصدیق ہے وہ بھی کم لاگت ہاؤسنگ فنانس حاصل کرنے کے اہل ہوجائیں گے۔
چہارم، بینکوں کو کم لاگت ہاؤسنگ فنانس کے لیے 30 ستمبر 2022ء تک ’انٹرنل کریڈٹ رسک ریٹنگ سسٹم ‘کی شرط سے بھی مستثنیٰ کردیا گیا ہے کیونکہ ان کے موجودہ نظام میں تخصیص کے ساتھ کم لاگت ہاؤسنگ فنانس کی گنجائش نہیں۔ چنانچہ کم لاگت ہاؤسنگ فنانس کے وہ قرض گیر جو بینکوں کے انٹرنل کریڈٹ ریٹنگ کے پیمانوں کی وجہ سے فنانسنگ حاصل نہیں کرسکتے وہ اب اہل ہوجائیں گے بشرطیکہ بصورت دیگر بینک مطمئن ہو۔ وقت سے مشروط یہ رعایت بینکوں کو اپنے ’انٹرنل کریڈٹ رسک ریٹنگ سسٹم ‘کو کم لاگت ہاؤسنگ فنانس کے لیے تیار کرنے میں مدد دے گی۔
آخراً، اُن قرض گیروں کو آسانی مہیا کرنے کے لیے جن کے پاس سیال تمسکات ہیں یا جو پہلے ہی ایک رہائشی یونٹ رکھتے ہیں، بینکوں کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ ’لون ٹو ویلیو ‘تناسب کا حساب لگاتے وقت ہاؤسنگ فنانس کی ایکویٹی کنٹری بیوشن کی جگہ موجودہ رہائشی جائیداد یا سیال تمسکات کو قبول کرکے رہائشی جائیداد کی خریداری؍تعمیر کے لیے ہاؤسنگ فنانس فراہم کردیں۔ فنانس فراہم کرنے والا بینک فنانس کی جانے والے رہائشی جائیداد کے مورگیج کے علاوہ موجودہ رہائشی جائیداد؍سیال تمسکات پر اپنا حق ِتصرف (lien )تخلیق کرے گا۔
توقع ہے کہ مذکورہ بالا ضوابطی ترغیبات سے اسٹیٹ بینک کی پاکستان میں ہاؤسنگ اور تعمیراتی فنانس کو تیز کرنے کی جاری کوششوں کو مزید تحریک ملے گی۔ یاد رہے کہ بینکوں کو پہلے ہی 31 دسمبر 2021ء تک ہاؤسنگ اور تعمیراتی فنانس کو اپنے نجی شعبے کے قرضوں کے 5 فیصد تک لانے کے لازمی اہداف دیے جاچکے ہیں۔