کراچی: 6 اکتوبر 2020ء کو وفاقی حکومت نے پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء کے تحت فارن کرنسی اکاؤنٹس رولز 2020ء جاری کیے۔ زرمبادلہ کے قواعد و ضوابط کے تحت افراد کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے دیے گئے عمومی یا خصوصی اجازت ناموں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
فارن ایکسچینج مینوئل کے چھٹے باب کے پیراگراف iv کے مطابق بیرونی کرنسی کے کھاتوں میں بیرون ملک سے موصولہ ترسیلات زر، پاکستان سے باہر جاری کردہ ٹریولرز چیک اور حکومت پاکستان کی جاری کردہ تمسکات کی انکیش منٹ کی رقوم جمع کرائی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں مقیم پاکستان کے کسی شہری کے بیرونی کرنسی کے اکاؤنٹ میں بھی نقد بیرونی کرنسی جمع کرائی جاسکتی ہے بشرطیکہ کھاتہ دار انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی تعریف کی رو سے فائلر ہو۔
حال ہی میں جاری کردہ قواعد و ضوابط کا مقصد انفرادی بیرونی کرنسی اکاؤنٹس کے آپریشن کے لیے ایک ضوابطی فریم ورک فراہم کرنا ہے۔ اس طرح کا فریم ورک اسٹیٹ بینک کی زرمبادلہ کے نظام کو مضبوط بنانے اور اسے مارکیٹ سے مزید ہم آہنگ بنانے کی کوششوں کا تسلسل ظاہر کرتا ہے۔ آئندہ بھی اسٹیٹ بینک افراد کی تمام بیرونی کرنسی کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر بینکاری چینلز کے استعمال میں اضافے کے لیے سہولت فراہم کرنے کے اقدامات کرتا رہے گا۔
فارن کرنسی اکاؤنٹس رولز کے بارے میں اکثر پوچھے جانے والے سوالات
براہ کرم وزارت ِخزانہ کے ایس آر او پر اسٹیٹ بینک کی پریس ریلیز بھی ملاحظہ کیجیے جو اس لنک پر دستیاب ہے:
https://www.sbp.org.pk/press/2020/Pr-11-Oct-20.pdf
سوال 1: اگر موجودہ فارن کرنسی ضوابط میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تو وزارت ِخزانہ کی جانب سے ایس آر او جاری کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
جواب: پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء (PERA) میں 2018ء میں ترامیم کی گئیں۔ اس قانون میں کی گئی ترامیم میں دیگر کے علاوہ یہ ترمیم بھی شامل تھی کہ وفاقی حکومت فارن کرنسی اکاؤنٹس میں رقوم جمع کرانے اور نکلوانے کے بارے میں قواعد و ضوابط بنا سکتی ہے۔ ان قواعد و ضوابط کے اجرا کا مقصد اسٹیٹ بینک کے لیے یہ گنجائش فراہم کرنا ہے کہ وہ فارن کرنسی اکاؤنٹس میں ڈپازٹس کے حوالے سے ہدایات جاری کرسکے بشمول ان ہدایات کے جو پہلے موجود ہیں نیز مزید کوئی ہدایات جو مستقبل میں جاری کی جاسکتی ہیں۔
اس طرح ان ضوابط کا مقصد انفرادی فارن کرنسی اکاؤنٹس کے آپریشن کے لیے فریم ورک فراہم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ان ضوابط سے زر ِمبادلہ کے نظام کو مضبوط بنانے اور افراد کو بینکاری چینلز کے ذریعے اپنی زر ِمبادلہ کی ضروریات پوری کرنے میں مدد دینے سے متعلق اسٹیٹ بینک کا مینڈیٹ منضبط شکل میں آگیا ہے۔
سوال 2: کیا اسٹیٹ بینک صورت ِحال کو واضح کرنے کے لیے ان ضوابط کے مطابق فارن کرنسی اکاؤنٹس کے لیے کوئی گائیڈلائنز جاری کرے گا؟
جواب:فارن کرنسی اکاؤنٹس سے متعلق اسٹیٹ بینک کے موجودہ قواعد و ضوابط میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور یہ قواعد وضوابط وزارت ِخزانہ کے جاری کردہ ضوابط سے متصادم نہیں۔
سوال 3: کیا ان ضوابط کا غیرمقیم پاکستانیوں کے لیے حال ہی میں متعارف کرائے گئے روشن ڈجیٹل اکاؤنٹس (RDA) پر کوئی اثر پڑے گا؟
جواب: نہیں۔ روشن ڈجیٹل اکاؤنٹس غیر مقیم پاکستانیوں کے لیے علیحدہ اسکیم ہے جو فارن کرنسی اور پاکستانی روپے کے اکاؤنٹس دونوں کے لیے ہے۔ ان اکاؤنٹس میں رقوم وصولی کی جاسکتی ہیں لیکن یہ رقوم پاکستان کے اندر سے نہیں بھیجی جاسکتیں۔ سرمایہ کاری کی آمدنی، اس پر منافع اور ان اکاؤنٹس میں کوئی بھی بیلنس کسی منظوری کی ضرورت یا رکاوٹ کے بغیر مفت بیرون ملک منتقل کیا جاسکتا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے براہ ِکرم یہ لنک دیکھیے:https://www.sbp.org.pk/epd/2020/FEC2.htm
سوال نمبر 4: وزارت ِخزانہ کے جاری کردہ فارن کرنسی اکاؤنٹس رولز کے مطابق ایکسچینج کمپنیوں سے خریدی گئی فارن کرنسی کو فارن کرنسی اکاؤنٹ میں جمع کرانے پر پابندی لگائی گئی ہے جو فارن کرنسی اکاؤنٹس میں ڈپازٹ کا اصل ذریعہ ہے۔ کیا فارن کرنسی اکاؤنٹ میں اب بھی ایکسچینج کمپنیوں سے خریدی گئی فارن کرنسی کریڈٹ کی جاسکتی ہے؟
جواب: رولز کے پیرا 3 (4) میں کہا گیا ہے کہ ’’ فارن کرنسی اکاؤنٹ میں کسی مجاز ڈیلر، ایکسچینج کمپنی یا منی چینجر سے خریدا گیا زر ِمبادلہ کریڈٹ نہیں کیا جائے گا ماسوائے اس کے کہ اسٹیٹ بینک کسی قانون کے تحت عمومی یا خصوصی اجازت دے‘‘۔ چونکہ اسٹیٹ بینک فائلرز کو ان کے فارن کرنسی اکاؤنٹ میں فارن کرنسی جمع کرانے کی عمومی اجازت پہلے ہی دے چکا ہے اور اسی طرح ایکسچینج کمپنیز مینوئل کے تحت ایکسچینج کمپنیوں سے خریدی گئی فارن کرنسی کے بارے میں بھی عمومی اجازت موجود ہے اس لیے فائلرز اپنے فارن کرنسی اکاؤنٹس میں نقد جمع کرانے کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔
سوال 5: کیا میرے لیے اپنے بچوں کی تعلیم کی فیس کے لیے رقم بھیجنا مشکل ہوجائے گا؟
جواب:نہیں۔ اس حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ موجودہ طریقہ کار کے مطابق بچوں کی تعلیمی فیس کے لیے رقم کسی فرد کے پاکستانی روپے نیز فارن کرنسی اکاؤنٹ کے ذریعے بھیجی جاسکتی ہے۔ صارف کی جانب سے ایک درخواست فارم پر فیس واؤچر کے ہمراہ وصولی پر بینک صارف کے اکاؤنٹ کو ڈیبٹ کرتا ہے اور فیس بیرون ملک تعلیمی ادارے کو منتقل کردیتا ہے۔ جس ادائیگی کی اجازت ہے اس میں درخواست ؍پروسیسنگ کے چارجز، ٹیوشن فیس، رہائش کے اخراجا ت وغیرہ شامل ہیں۔
سوال 6: طبی علاج کے لیے ترسیلات کیسے بھیجی جاسکتی ہیں؟
جواب: اس حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ موجودہ طریقہ کار کے مطابق صارف کی جانب سے ایک درخواست کے ہمراہ اسپتال؍مطب کی انوائس؍ضروری دستاویزات کی وصولی پر بینک صارف کے اکاؤنٹ کو ڈیبٹ کردے گا اوررقوم بیرون ملک اسپتال؍ مطب کو بھیج دے گا۔
سوال 7: کیا فری لانسرز؍آئی ٹی برآمد کنندگان کے لیے کچھ اقدامات پر غور ہورہاہے؟
جواب:اسٹیٹ بینک فری لانس کمیونٹی اور آئی ٹی برآمد کنندگان کو پچھلے کئی برسوں سے مدد فراہم کرتا رہا ہے جس کا مقصد ان کے کاروبار خصوصاً برآمدات کو فروغ دینا ہے۔
آئی ٹی خدمات کی برآمد کرنے والے ادارے موجودہ قواعد کے تحت اپنا خصوصی بیرون کرنسی اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں اور اپنی زرمبادلہ کی ضروریات جیسے بیرون ملک ایجنٹوں؍خریداروں کو کمیشن ؍ ڈسکاؤنٹ کی ادائیگی، تشہیر جیسے اخراجات ، ہارڈویئر؍سوفٹ ویئر کی درآمد، بیرونی کنسلٹنٹ کی فیس وغیرہ کے لیے برآمدی آمدنی کا 35 فیصد تک رکھ سکتے ہیں۔
فری لانسرز کو مدد دینے کے لیے اسٹیٹ بینک نے پاکستان ریمی ٹنس انی شیے ایٹو چینلز کھولے ہیں تاکہ وہ اپنی خدمات کی آمدنی سہولت سے وصول کرسکیں۔ اس چینل کو استعمال کرکے ترسیلات وصول کرنے والے فری لانسرز کو اجازت ہے کہ وہ پاکستان کے اندر پاکستانی روپے میں اپنے بینک اکاؤنٹ کے لیے بیرون ملک بھیجنے کے لیے اپنی برآمدی آمدنی کا 35 فیصد تک منتقل کرسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ جو فری لانسرز اپنی خدمات کی برآمد کررہے ہوں اور فارن کرنسی میں ان کو ادائیگی ہوتی ہو وہ اسپیشل فارن کرنسی رٹنشن اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں اور خدمات کی برآمدسے فارن کرنسی میں موصول ہونے والی آمدنی کا 35 فیصد تک رکھ سکتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آئی ٹی خدمات کی فروغ کے لیے مزید اقدامات کرتا رہے گا۔
سوال 8:آگے چل کر اسٹیٹ بینک افراد کو اپنی فارن کرنسی کی ضروریات کو پورا کرنے میں سہولت فراہم کرنے کے تناظر میں کیا اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟
جواب: اسٹیٹ بینک کا وسط مدتی ہدف بینکاری میں ڈجیٹائزیش کو فروغ دینا، نقد کے استعمال کو کم کرناا ور معمول کی لین دین کے لیے کسی فرد کی بذات ِخود برانچ جانے کی ضرورت کو گھٹانا ہے۔ اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک مالی لین دین کے لیے بینکاری چینلز کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتا رہے گا۔