حضرت عکرمہ ابن ابی جہلؓ اس وقت اپنی عمر کی تیسری دہائی میں تھے، جب نبی رحمت نے حق و ہدایت کی دعوت کا برملا اظہار کیا تھا۔ وہ حسب و نسب کے اعتبار سے قریش کے معزز ترین خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور دولت و ثروت کے لحاظ سے ان میں سب سے فائق تھے۔
ان کا باپ مکہ کا سب سے سرکش اور جابر شخص، شرک و کفر کے قافلے کا سالار اور مسلمانوں کی ابتلاءو آزمائش کا سب سے بڑا ذمہ دار تھا، جس کی مکاری اور چالبازی کے ذرےعے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان و یقین کو پرکھا اور وہ اس معیار پر کھرے اترے۔
یہ تو ان کا باپ تھا اور وہ خود عکرمہؓ ابن ابی جہل مخزومی ہیں۔ عکرمہؓ کا شمار قریش کے معدودے چند سربرآوردہ رئیسوں اور اس کے نامور شہ سواروں میں ہوتا تھا۔ عکرمہ ابن ابی جہلؓ نے خود کو اس حال میں پایا کہ وہ اپنے باپ کی مرضی کے مطابق حضرت محمدؐ کی مخالفت کرنے پر مجبور ہے، چنانچہ انہوں نے آپؐ کے ساتھ سخت عداوت کا رویہ اختیار کیا۔ ان کے ساتھیوں کو دردناک سزائیں اور اہل اسلام پر ایسی عقوبتیں نازل کیں کہ اس کے باپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں۔
جب ان کے باپ نے معرکۂ بدر میں لشکرِ شرک کی قیادت کی اور لات و عزیٰ کی قسمیں کھا کھا کر اعلان کیا کہ محمد (ﷺ) کو شکست دیئے بغیر وہ مکہ واپس نہیں لوٹے گا۔ ان لوگوں نے بدر کے مقام پر پڑاؤ ڈال کر وہاں تین دن قیام کیا۔ اس دوران وہ اونٹ ذبح کر کے ان کا گوشت کھاتے اور شراب پیتے رہے۔
ان کی دل بستگی کے لئے دف بجا بجا کر لونڈیاں گانے سناتی رہتیں۔ جس وقت ابوجہل اس معرکے کی قیادت کررہا تھا، اس کا بیٹا اس کا قابل اعتماد دست و بازو تھا، لیکن لات اور عزیٰ نے نہ اس کی پکار سنی، نہ اس کی مدد کو آئے، کیونکہ وہ سننے سے معذور اور مدد کرنے سے عاجز تھے.... تو وہ ذلت کی موت مارا گیا اور اس کے بیٹے نے دیکھا کہ مسلمانوں کے پیاسے نیزے اس کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔ اس نے اپنے کانوں سے اس کے حلق سے نکلنے والی آخری چیخ سنی تھی۔
عکرمہ بدر کے میدان میں قریش کے اس بڑے سردار کی لاش چھوڑ کر مکہ لوٹ آئے۔ مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد ان کےلئے یہ ممکن ہی نہ رہا کہ وہ اپنے باپ کی لاش اٹھا کر لاتے اور اسے مکہ میں دفن کرتے۔
مسلمانوں نے دوسرے مقتولین کے ساتھ اسے بھی بدر کے کنویں میں پھینک کر اس پر ریت ڈال دی اور اسی روز سے اسلام کے ساتھ عکرمہ کے رویے نے دوسری صورت اختیار کرلی۔ پہلے تو وہ اپنے باپ کی حمایت میں اسلام کے مخالف تھے، مگر آج سے ان کے انتقام کے لئے اس سے برسر پیکار ہو گئے اور یہیں سے عکرمہ اور اس کے دوسرے ہم خیال مشرکینِ قریش جن کے آباء جنگ بدر میں مارے گئے تھے اور وہ ان کے انتقام کی آگ میں جل رہے تھے، اہل مکہ کے سینوں میں اسلام کے خلاف عداوت کی آگ اور انتقام کے شعلے بھڑکانے میں لگ گئے، جس کے نتیجے میں اُحد کا خونریز معرکہ پیش آیا۔
جنگ بدر میں اپنی شکست کا بدلہ اور اپنے مقتولین کا انتقام لینے کے لئے قریش کا جو لشکر جرّار مکہ سے روانہ ہوا، عکرمہ اس میں شریک ہوگئے۔ اس نے اپنی بیوی ام حکیم کو بھی ساتھ لیا تاکہ وہ ان عورتوں کے ساتھ شامل ہوکر صفوں کے پیچھے کھڑی ہو جائے اور جب جانبازانِ قریش میں شکست کے آثار نظر آئیں تو عورتیں دف بجا بجا کر انہیں قتال پر برانگیختہ کریں اور ان کو میدان جنگ میں ثابت قدم رکھنے کی کوشش کریں۔
قریش نے اپنی فوج کے گُھڑ سوار دستے کی قیادت کے لئے اس کے میمنہ پر خالد بن ولیدؓ اور میسرہ پر عکرمہؓ بن ابی جہل کو متعین کیا۔ اس روز ان دونوں مشرک سالاروں نے جرأت و شجاعت اور مردانگی و جواں مردی کے ایسے جوہر دکھائے کہ قریش کا پلہ صحابہ کرامؓ پر بھاری ہوگیا اور اس کے نتیجے میں وہ فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوئے، جس پر ابو سفیان فرط مسرت سے چیخ اٹھا تھا: ”یہ جنگ بدر کا بدلہ ہے“۔
غزوۂ خندق کے موقع پر مشرکین نے مدینہ کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ جب محاصرے نے کافی طول کھینچا تو عکرمہ کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ وہ محاصرے کی طوالت سے بد دل ہوگئے۔ آخر انہوں نے خندق کے ایک تنگ حصے کو تاکا اور اپنا گھوڑا کُدا کر اس پار جا پہنچے۔ کچھ جری سواروں نے اس کی اقتداء کی اور وہ بھی ان کے پیچھے خندق عبور کرکے دوسری جانب پہنچ گئے۔
رسول اکرمؐ نے قریش کے ان تمام جرائم کو معاف کردیا تھا، جو انہوں نے آپ کے مقابلے میں کئے تھے، البتہ اس عام معافی سے چند مجرموں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا اور نام لے لے کر حکم دیا گیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے، خواہ وہ غلاف کعبہ میں چھپے ہوئے ہی کیوں نہ ملیں۔ ان لوگوں میں عکرمہ ابن ابی جہل کا نام سرفہرست تھا، اس لئے اپنی جان کے خوف سے وہ چھپ کر مکہ سے نکلے اور یمن کی طرف چل پڑے، کیونکہ اس کے علاوہ انہیں کسی دوسری جگہ پناہ ملنے کی امید نہ تھی۔
عکرمہ کی بیوی ام حکیم اور ہند بنت عتبہ دس دوسری عورتوں کے ساتھ نبی کریمؐ سے بیعت کرنے کے ارادے سے آپ کی قیام گاہ پر پہنچیں۔ اس وقت دو ازواج مطہرات، آپ کی صاحبزادی حضرت فاطمة الزہراؓ اور خاندانِ عبد المطلب کی چند خواتین آپ کے پاس موجود تھیں۔ اس موقع پر ہند نے اپنا چہرہ نقاب میں چھپا رکھا تھا۔ انہوں نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا:
”اے اللہ کے رسول! اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے پسندیدہ دین کو غالب کردیا۔ میں آپ کے ساتھ اپنی نسبی اور خاندانی قرابت کا واسطہ دے کر آپ سے خیر اور حسن سلوک کی خواستگار ہوں۔ میں آپ کی تصدیق کرنے والی ایک مسلمان عورت ہوں“۔ پھر اس نے اپنے چہرے سے نقاب سرکاتے ہوئے کہا: ”اللہ کے رسول! میں عتبہ کی بیٹی ہند ہوں“۔ تو رسول اکرم نے فرمایا:
”میں تمہیں مرحبا کہتا ہوں اور تمہارا خیر مقدم کرتا ہوں“۔
اس کے بعد عکرمہ کی بیوی ام حکیم کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے پہلے تو اپنے اسلام کا اظہار کیا، پھر یوں گویا ہوئیں: ”اے اللہ کے رسول! عکرمہ اس خوف سے بھاگ گئے ہیں کہ آپ انہیں قتل کردیں گے۔ اللہ کے رسول! آپ انہیں امان بخش دیں، اللہ آپ کو امان دے گا“۔
آپؐ نے ان کی درخواست سن کر ارشاد فرمایا: ”عکرمہ بن ابی جہل کو امان دی جاتی ہے“۔
شوہر کی جاں بخشی کا اعلان سن کر ام حکیمؓ اسی وقت کر ان کی تلاش میں نکل پڑیں۔ ام حکیمؓ نے تن تنہا اپنا سفر جاری رکھا اور آخر کار تہامہ کے علاقے میں سمندر کے کنارے عکرمہ کو پا لیا، اس وقت وہ ایک مسلمان ملاح سے گفتگو کر رہے تھے کہ وہ اسے اس پار پہنچا دے، مگر ملاح اس بات پر مصر تھا کہ پہلے تم اخلاص کا اظہار کرو، تب میں تم کو اس پار لے جاؤں گا۔ عکرمہ نے پوچھا کہ میں اخلاص کا اظہار کس طرح کروں؟ تو اس نے کہا کہ کلمہ شہادت پڑھوں۔
عکرمہ نے جواب دیا کہ ”اسی سے بھاگ کر تو میں یہاں آیا ہوں....“ ابھی ان دونوں کی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ ام حکیمؓ عکرمہ کے پاس پہنچ گئیں اور ان سے بولیں: ”میرے ابن عم! میں تمہارے پاس سب سے افضل، سب سے نیک اور سب سے اچھے انسان کی طرف سے آئی ہوں۔ میں تمہارے پاس محمد بن عبداللہ (ﷺ) کی طرف سے آئی ہوں، میں نے ان سے تمہاری جاں بخشی کا وعدہ لے لیا ہے۔ تم اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالو“۔
عکرمہ نے پوچھا کہ ”کیا تم نے خود ان سے بات کی ہے؟“
انہوں نے جواب دیا ”ہاں! میں نے خود بات کی ہے اور انہوں نے تم کو امان دی ہے“۔ وہ برابر اس کی جاں بخشی کا یقین دلاتی رہیں، یہاں تک کہ وہ مطمئن اور ان کے ساتھ واپسی پر رضامند ہوگئے۔ جب عکرمہ مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: عکرمہ ابن ابی جہل بہت جلد ایک مومن و مہاجر کی حیثیت سے تمہارے پاس پہنچنے والا ہے، اس کے باپ کو برا مت کہنا، مُردے کو برا کہنے سے زندہ کو اذیت پہنچتی ہے اور میت کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی۔
اس کے تھوڑی ہی دیر بعد عکرمہ اپنی بیوی ام حکیمؓ کے ساتھ رسول اکرم کی مجلس میں پہنچ گئے۔ آپ انہیں دیکھتے ہی فرط مسرت سے اچھل پڑے اور چادر کے بغیر ہی ان کے استقبال کے لئے لپکے۔ پھر جب آپ اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئے تو عکرمہ نے کھڑے کھڑے عرض کیا:
”محمد! ام حکیمؓ نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے مجھے امان دے دی ہے“۔ حضور نے جواب دیا ”اس نے صحیح کہا ہے، تم مامون ہو“۔ انہوں نے دوبارہ سوال کیا ”اے محمد! آپ مجھے کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟“
”میں تمہیں اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ تم گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا لائق عبادت و پرستش نہیں ہے اور اس بات کی کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور اس بات کی کہ تم زکوٰة دو“۔ آپ نے ارکان اسلام گنواتے ہوئے فرمایا:
”بخدا آپ نے حق کی دعوت دی اور خیر کا حکم دیا.... بخدا آپ اس دعوت سے پہلے بھی ہم میں سب سے سچے اور نیکوکار تھے“۔ یہ کہہ کر انہوں نے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ بڑھا دیا اور کلمہ شہادت پڑھ کر دائرئہ اسلام میں داخل ہو گئے۔
اسلام لانے کے بعد حضرت عکرمہؓ نے رسول اکرم سے درخواست کی: ”اللہ کے رسول: مجھے سب سے اچھی چیز بتا دیجئے، تاکہ میں اسے برابر پڑھا کروں“۔
”کلمہ شہادت پڑھا کرو“۔ آپ نے جواب دیا۔ بولے: ”اس کے بعد کیا؟“
فرمایا: ”یہ کہو کہ میں خدائے تعالیٰ اور حاضرین کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں مسلم ہوں، مجاہد ہوں اور مہاجر ہوں“۔ آج تم جو چیز بھی مجھ سے مانگو گے وہ تمہیں عطا کروں گا“۔
”میں چاہتا ہوں کہ میں نے آپ کے ساتھ جتنی عداوت کی، جہاں کہیں بھی آپ کے مد مقابل ہوا اور آپ کے خلاف جو بات بھی، خواہ آپ کے روبرو یا پسِ پشت کہی ہو ان سب سے میرے لئے مغفرت کی دعا فرمائیں“۔ عکرمہؓ نے زبان سوال کھولی۔
تو رسول اکرم نے ان کےلئے دعا فرمائی:
خدایا! ہر اس عداوت سے عکرمہؓ کی مغفرت فرما جو اس نے میرے ساتھ کی اور معاف فرما دے۔ اس کی ہر اس سرگرمی کو جس کے ذریعہ اس نے تیرے نور کو بجھانے کی کوشش کی اور در گزر فرما اس کی ہر اس حرکت کو جو اس نے میری آبرو سے کھیلتے ہوئے میرے سامنے یا میری عدم موجودگی میں کی ہو۔
اس دعا کو سن کر حضرت عکرمہؓ کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اور انہوں نے کہا:
”اے اللہ کے رسول! خدا کی قسم آج سے پہلے اللہ کی راہ سے بندگان خدا کو باز رکھنے کے لئے جتنا مال میں خرچ کرتا رہا ہوں، اب آج کے بعد سے خدا کی راہ میں اس سے دو گنا خرچ کروں گا اور آج سے پہلے خدا کے دین سے روکنے کے لئے جتنی قوت سے لڑتا رہا، آج کے بعد سے اس سے دوگنی طاقت کے ساتھ راہ خدا میں لڑوں گا“۔
اور اس روز سے مسلمانوں کی جماعت میں ایک ایسے شخص کا اضافہ ہوا جو میدانِ کار زار میں ایک شیر دل شہسوار اور مسجدوں میں ایک عابد شب زندہ دار اور قاری قرآن تھا۔ وہ قرآن کریم کو اپنے چہرے پر رکھ کر خدا کے خوف سے روتے ہوئے بڑے والہانہ انداز میں کہتے: کتابُ ربی.... کلامُ ربی....
حضرت عکرمہؓ نے رسول اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے پورا کر دکھایا۔ ان کے قبول اسلام سے بعد کفر و اسلام کے مابین جو بھی معرکہ پیش آیا، اس میں ذوق و شوق کے ساتھ شریک ہوئے اور مسلمان جب بھی کسی مہم پر نکلے اس میں آگے آگے رہے۔ معرکہ یرموک میں تو حضرت عکرمہؓ میدان قتال کی طرف اس طرح لپکے تھے جیسے کوئی تشنہ لب شدید گرمی میں ٹھنڈے پانی کی طرف لپکتا ہے۔
ایک موقع پر جب مسلمانوں پر دشمن کا دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا تھا، وہ اپنے گھوڑے سے کود پڑے، تلوار کی نیام توڑ کر پھینک دی اور ننگی تلوار لے کر رومیوں کی صفوں میں گھس گئے۔ یہ دیکھ کر حضرت خالد بن ولیدؓ نے فوراً ان کے پاس پہنچ کر کہا:
”عکرمہ! ایسا نہ کیجئے، اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالئے۔ آپ کا قتل ہوجانا مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت اور ناقابل تلافی سانحہ ہوگا“۔
لیکن حضرت عکرمہؓ نے ان سے کہا: خالد! ہٹ جاو ¿! میرا راستہ نہ روکو۔ صحبت ِ رسول سے استفادہ اور خدمت اسلام میں تم کو میرے اوپر سبقت حاصل ہے۔ میں اور میرا باپ رسول اکرم کے کٹر مخالف تھے اور میرا باپ آخری دم تک اس مخالفت پر قائم رہا اس لئے صحبت رسول کا شرف میرے حصے میں بڑی تاخیر سے آیا۔ مجھے چھوڑدو۔ آج میں گزشتہ کوتاہیوں اور محرومیوں کی تلافی کرلینا چاہتا ہوں۔
مسلمانوں کی عظیم الشان فتح کا آفتاب طلوع ہوا تو یرموک میں حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل شہید ہوچکے تھے۔