25 فروری تاریخ ساز دن، مگر صد افسوس اس دن کے بارے میں بہت کم لوگ واقفیت رکھتے ہیں۔ 25 فروری 1948ء کو ”اردو“ کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اردو برصغیر کی زبان ہے اردو میٹھی، شائشتہ اور آسان زبان ہے۔ دیگر زبان بولنے والے بھی آسانی سے سیکھ جاتے ہیں۔
یہ دنیا کی ساتویں یا آٹھویں بڑی زبان بن چکی ہے۔ میرے لیے عزاز کی بات ہے کہ اردو میری مادری زبان ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آخر کار پاکستان کی قومی زبان ”اردو“ کو سرکاری زبان کادرجہ دینے جانے کے بعد بھی اسے وہ مقام نہیں دیا جارہا ہے۔ ابتدا میں تحریر کئے گئے ادارے اس کی واضح مثال ہیں۔ اگر معتبر اداروں میں اردو کا نفاذ نہ ہو تو دیگر اداروں کا اللّٰہ ہی حافظ ہے۔
پاکستان میں مختلف زبان کے بولنے والے لوگ رہتے ہیں دیگر زبان کا انتخاب کیا جا سکتا تھا۔ جہاں تک بات میری سمجھ میں آئی ہے کہ ”اردو“ میں دیگر زبان کے الفاظ کا مجموعہ ہے لوگ دیگر زبان کی نسبت جلد ہی اس زبان کو سیکھ لیتے ہیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی مرضی سے ”اردو“ کو قومی زبان کا درجہ نہیں دیا انہوں نے عوام کی ترجمانی ہے۔
قائد اعظم انگریزی میں تقریر کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں اردو پر عبور حاصل نہیں تھا۔ قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم ایک جلسے خطاب کر رہے تھے کہ شرکاء کی جانب سے آواز آئی۔۔۔۔۔۔ قائد ”اردو، اردو“۔ قائد اعظم نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کہا کہ تم ”اردو“ مانگتا، ہم پاکستان بنانا مانگتا، شاید اسی بنا پر ”اردو“ کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہو۔
پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد ہی مشرقی پاکستان (جوکہ موجودہ بنگلہ دیش) ہے وہاں سے قومی زبان کا معاملہ اٹھا تو قائداعظم نے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہوگی۔ لوگوں نے قائد کی بات کو تسلم کیا۔
بدقسمتی سے 70 سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود قومی زبان کا معاملہ سولی پر لٹکا ہی رہا، چند برس قبل سپریم کورٹ نے احکامات دیئے کہ اردو کو تمام اداروں میں نافذ کیا جائے۔ اس کے باوجود اردو کو اجنبیت حاصل رہی، قومی زبان کی ایسی بے توقیر ی شاید ہی کسی قوم نے کی ہوگی۔ نہ جانے اس کا ذمہ دار کون ہے۔
خیر چھوڑیں صاحب اقتدار سے کیا شکوہ، عوام نے بھی اردو کو ووہ عزت نہیں بخشی جس کی وہ حقدار تھی۔ ماضی پر نگاہ ڈالیں تو معاشرے میں کہیں نہ کہیں اردو کا عکس نظر آتا تھا۔ مثال کے طور پر شادی بیاہ، سالگرہ و دیگر تقریبات کے دعوت نامے اردو میں ہی شائع ہوتے تھے، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ لوگ غیر زبان میں شائع کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
غیر زبان سے ہماری ایسی محبت کہ ہم کسی سے محبت کا اظہار بھی (I love you)بول کر کرتے ہیں اگرکسی سے معذرت کرنی ہو تو ”سوری‘‘ بولتے ہیں۔ تہذیب و روایات ہم سے کوسوں دور چلے گئے ہیں، روز مرہ زندگی میں بھی چھوٹے موٹے انگریزی کے الفاظ استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جوتے کو شوز ، جرابوں کے لیے بھی انگریزی کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ بڑے برانڈ تو درکنار چھوٹے موٹے دکان والے بھی انگریزی میں نام لکھوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
شادی ہالز، اسکول، اسپتال کے نام بھی انگریزی میں آویزاں ہوتے ہیں۔ جبکہ لوگوں کی اکثریت کم تعلیم یافتہ ہے۔ بس اردو اگر رائج ہے تو وہ تھانوں میں، جہاں اب تک ایف آئی آر کا انگریزی ورجن نہیں آیا۔
قومی زبان کی بے توقیر کرنے میں ہم نے کوئی کسر نہ چھوڑی، پھر بھی ہم خود کو مہذب قوم سمجھتے ہیں۔ ذرا پڑوسی ملک ہندوستان پر نظر ڈالیں تو سرکاری زبان انگریزی اور ہندی رائج ہونے کے باوجود لوگ وہاں اردو بولنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
کبھی کبھی سوشل میڈیا پر اردو کے خلاف تحریریں نظر آتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو کے خلاف باتیں کرنے والے اردو میں ہی بڑ بڑ کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ ساری باتیں کسی اور زبان میں کہیں گے تو زیادہ لوگوں تک نہیں پہنچیں گی۔
اردو کی اہمیت سے انکار کرنے والوں کو یہ بات واضح کرتا چلوں کہ چند برس قبل ایک پرائیویٹ چینل کے اینکر علی انیق سید "کِتابچہ“ کو "کُتّا بچہ" پڑھ گئے۔ خبر برطانوی فوجیوں کی خودکشی سے روک تھام سے متعلق تھی۔ اینکر نے جب اس خبر کا او سی ( آن کیمرہ) پڑھا تو کتابچہ کو کتابچہ پڑھ گئے۔ ایک بار کی غلطی سمجھ میں آتی ہے لیکن موصوف جب وائس اوور پڑھ رہے تھے تو اس دوران بھی انہوں نے اسے کتابچہ ہی پڑھا، وہ بھی اعتماد کے ساتھ۔ کیونکہ اینکر اردو کے اس لفظ کے معنی سے نہ آشنا تھے، جس پر سوشل میڈیا پر جگ ہسنائی ہوئی جو ناقابل بیان ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ یا غلطی نہیں کم علمی کا نتیجہ تھا۔ غلطی ایک بار ہوتی ہے دوسری بار نہیں، ٹھیک ہے اگر غلطی ہوئی تو اینکر کو معذرت کرنی چائیے تھی۔
ہم صوبائی زبان کی ترویج کے لیے پروگرام کا انعقاد کرتے ہیں، لیکن قومی زبان کے لیے شاید ہی کوئی تقریب کا اہتما م کرتے ہیں۔ اس دن کو سرکاری سطح پر بھی کوئی پذیرائی نہیں ملی، آخر کب قومی زبان کو مقام حاصل ہوگا جس کی وہ حقدار ہے۔
تحریر: شاہد الرحمان