سلطان الملک الناصر صلاح الدین یوسف اول۔ امیر نجم الدین ایوب کا بیٹا۔ ۵۳۲ھ/ ۱۱۳۸ء کو تکریت کے مقام پر پیدا ہوئے۔ ان کی شہرت کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب ان کے چچا شیرکوہ مصر کے خلاف اپنی پہلی مہم میں ان کو اپنے ساتھ لے گئے۔
شیرکوہ نے صلاح الدین کو حکم دیا کہ وہ بلبیس اور اس ضلع کا محاصرہ کرکے وہاں سے خراج وصول کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی۔ شاور نے اپنے آپ کو مشکل میں مبتلا پاکر شاہ اموری کو امداد کیلئے مدعو کیا۔ چنانچہ شیرکوہ اور صلاح الدین بلبیس میں قلعہ بند ہونے پر مجبور ہوگئے۔ دونوں نے اس پا مردی سے سے مدافعت کی کہ شاور اور شاہ اموری اسے سَر نہ کرسکے۔
۵۶۰ھ کے آغاز میں شیرکوہ صلاح الدین کے ہمراہ اپنی فوجوں کو صحیح سالم لے کر شام پہنچ گیا۔ اس جنگ کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ سلطان نور الدین اور ان کے ساتھیوں کو مصر، اس کی دولت اور اس کی طاقت کا بخوبی اندازہ ہوگیا۔
شیرکوہ کے دل میں مصر کو فتح کرنے اور اس میں آباد ہونے کا شوق پیدا ہوا، لیکن صلیبی جنگوں کے باعث نور الدین اپنی افواج کو منتشر کرنا نہیں چاہتے تھے۔ تین برس بعد شاور نے اموری سے ایک نیا معاہدہ کرلیا اور شیرکوہ کو دوبارہ مصر پر چڑھائی کرنے کا حکم دیا۔
شیرکوہ نے ایک بار پھر صلاح الدین ایوبی کو اپنے ساتھ لیا۔ یہ قافلہ جب قاہرہ پہنچا تو لوگوں نے نجات دہندہ کی حیثیت سے اس کا استقبال کیا۔ مگر شاور اس کے خلاف ہی رہا۔ اُس نے شیرکوہ، صلاح الدین اور ان کے ساتھیوں کو ایک ضیافت کے موقع پر قید کرنے کی سازش کی، جس کا انہیں علم ہوگیا۔
صلاح الدین نے شاور سے بدلہ لینے کی ٹھانی اور ایک دن جب شاور گھوڑے پر تنہا سواری کر رہا تھا، صلاح الدین نے اس کا خاتمہ کردیا۔ خلیفہ کو اپنے ظالم وزیر سےنجات حاصل کرکے خوشی ہوئی۔ اور اس نے شیرکوہ کو اپنا وزیر مقرر کردیا۔
دو مہینے بعد شیرکوہ کا انتقال ہوگیا تو خلیفہ نے صلاح الدین کی نیک فطرت کے باعث الملک الناصر کا خطاب دے کر ان کو وزیر مقرر کردیا۔ ادھر سیاہ فام محافظینِ محل سازشوں میں لگے رہے۔
فرنگیوں کو صلاح الدین کی حکومت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اور وہ بجا طور پر ان کو بیت المقدس کیلئے خطرہ خیال کرتے تھے۔ انہوں نے فرانس، جرمنی، انگلستان، بوزنطی بادشاہ اور پاپائے روم کی طرف فوری مدد کیلئے ایلچی روانہ کئے۔ اور وہ قسطنطنیہ کی طرف سے ایک فوجی بیڑہ اور جنوبی اطالیہ کی طرف سے ایک امدادی فوج حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
صلاح الدین، نور الدین سے مدد کے خواہاں ہوئے اور یہ درخواست بھی کی کہ وہ کمک ان کے والد کے زیر کمان بھیجی جائے۔ ادھر بوزنطی فوج کو رسد کی کمی کی دقت پیش آنا شروع ہوگئی۔ اور انوری کو اپنی مکمل فتح کے حوالے سے شبہ پیدا ہوگیا۔ لہٰذا اس نے صلاح الدین سے گفتگو کرنے اور ایک معقول رقم کے عوض مصالحت کرلینا زیادہ قرین مصلحت خیال کیا۔
اگلے سال صلاح الدین نے فلسطین پر یلغار کرکے رملہ اور عسقلان تک پیش قدمی کرلی۔ اس سال وہ ایلتہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ دوسرے سال انہوں نے خطبہ جمعہ میں فاطمی خلیفہ کے نام کی جگہ عباسی خلیفہ کے نام کا اجرا کرکے نور الدین کی دیرینہ خواہش پوری کردی۔
اس کے بہت جلد بعد خلیفہ العاضد فوت ہوگیا۔ نور الدین صلیبی فوجوں کے مقابلے کیلئے لشکر جمع کرچکا تھا کہ اچانک دمشق میں ایک شدید بیماری میں مبتلا ہوگیا اور چند دن بیمار رہنے کے بعد فوت ہوگیا۔
صلاح الدین نے نور الدین کے کمسن بیٹے الملک الصالح اسمٰعیل کو بادشاہ تسلیم کرلیا۔ اور خود صقیلہ کے نازمنوں سے لڑنے میں مصروف ہوگئے۔ صلاح الدین کو اس لڑائی میں بے شمار مال غنیمت ہاتھ آیا۔
نورالدین بھی وفات پا چکا تھا لہٰذا صلاح الدین بلا خوف و خطر وسیع اختیارات کے مالک تھے اور اپنی تمام تر توجہ اپنے نصب العین یعنی صلیبیوں کے خلاف جنگ میں صرف کرسکتے تھے۔
انہوں نے اس کام کی ابتدا شام سے کی۔ شام کے حالات مخدوش تھے اور مسلمانوں کا کوئی صحیح رہنما نہ تھا۔ ان حالات میں صلاح الدین یہ سوچنے پر حق بجانب تھے کہ وہ شام میں اقتدار حاصل کرلیں۔ انہوں نے حلب پر صالح دیا اور شامی فوجوں کے سالار بن گئے۔
اس وقت سے صلاح الدین کی عظمت کے جوہر کھلنے شروع ہوئے۔ مستقبل میں ہونے والے واقعات نے ثابت کردیا کہ وہ ایک بہترین صلاحیتوں کی حامل شخصیت کے مالک تھے۔
ان کا نمایاں نصب العین خلافت فاطمیہ کا خاتمہ اور عیسائیوں سے فیصلہ کن جنگ تھا، جن کے جنگی عزائم سے مشرق وسطیٰ کا امن و امان خطرے میں پڑگیا تھا۔ حتیٰ کہ حج کا راستہ بھی محفوظ نہ رہا تھا۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی ان مقاصد کے کے حصول میں کامیاب رہے۔
وہ ایک لائق سپہ سالار تھے، مگر اس سے زیادہ وہ اعلیٰ درجے کے سیاستدان بھی تھے۔ اور قابل مشیروں کے مشوروں کو قبول کرتے تھے۔ نیز اپنے رفقائے کار منتخب کرنے میں ہوشیار اور کامیاب تھے، لیکن وہ اقتدار کو کبھی اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ صلاح الدین کے خطوط بے شمار ہیں اور ان میں سیاسی حکمت عملی کی وافر معلومات پائی جاتی ہیں۔
اعلیٰ فوجی اور سیاسی فہم کے سبب صلاح الدین نے مصر میں عنانِ حکومت نہایت مضبوطی سے تھام لی، لیکن اس اسمٰعیل کو بھی حکومت کرنے دی، کیونکہ وہ ان کو بے ضرر معلوم ہوتا تھا اور حماۃ، حمص اور بعلبک جو بغیر لڑائی کے ہی فتح ہوگئے اپنے عزیزوں کو جاگیر کے طور پر دے دیئے۔ پھر خلیفہ نے اُن کو مصر، سوڈان، فلسطین اور وسطی شام کی حکومت عطا کردی۔ چنانچہ وہ سلطان الاسلام والمسلمین کہلایا کرتے تھے۔
۵۷۳ھ میں فوج کے ساتھ فلسطین آئے اور غزہ اور عسقلان کے علاقے ویران کر دیئے۔ بالڈ ون چہارم کے ساتھ ان کا مقابلہ ہوا لیکن صلاح الدین کی نمایاں برتری کے کے پیش نظر اُسے پیچھے ہٹنا پڑا۔
بالڈ ون نے ارد گرد کے صلیبی جنگ آزماؤں کو اکٹھا کیا اور پھر دوبارہ جنگ میں آ دھمکا۔ رملہ کے قریب دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا اور عیسائیوں کا پلہ بھاری رہا۔ ۵۷۶ھ/ ۱۱۸۰ء میں بالڈ ون اور صلاح الدین کے درمیان دو سال کیلئے صلح کا معاہدہ ہوگیا۔
صلاح الدین مسلم علاقوں میں بلا شرکتِ غیرے قبضہ حاصل کرنے میں کوشاں رہے۔ انہوں نے چند سال شام کا باقی علاقہ فتح کرنے اور عراق پر اقتدار حاصل کرنے پر صرف کئے۔
۵۷۹ھ/ ۱۱۸۳ء میں صلاح الدین اور بالڈ ون پنجم کے درمیان چار سال کیلئے ایک نیا صلح نامہ طے ہوگیا۔ جلد ہی بالڈ ون پنجم مر گیا اور بدامنی پھیل گئی۔ لڑائی کے بعد صلاح الدین کی فوجوں کا قلعہ طبریہ پر قبضہ ہوگیا۔
جس طرح جنگِ قرون حماۃ کے بعد انہیں شام کی حکمرانی مل گئی تھی اسی طرح حطیّن کی جنگ کے بعد ان کا فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ ہوگیا۔ صلاح الدین نے اعلان کیا کہ 40 دن کے اندر اندر عیسائی شہر سے نکل سکتے ہیں بشرطیکہ وہ فی مرد 10 دینار، فی عورت 5 دینار اور فی بچہ ایک دینار تاونِ جنگ ادا کریں۔ بہت سے لوگوں کو انہوں نے زرِ فدیہ لئے بغیر ہی چھوڑ دیا۔ دس ہزار افراد کا فدیہ خود ادا کیا۔
لین پول، ایوبی سلطنت کی عظمت اور عالی ظرفی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں آیا کہ کسی عیسائی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو۔
قبۃ الضحرۃ اور مسجد اقصیٰ کو بحال کردیا گیا۔ فتح بیت المقدس کا جشن منانے میں پوری اسلامی دنیا شریک تھی۔ فلسطین کا بیشتر حصہ صلاح الدین کی حکمرانی میں اسلام کے پرچم تلے آچکا تھا۔
صلاح الدین کو اپنی باقی زندگی کے کچھ مہینے امن و عافیت کے ساتھ گزارنے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے بیت المقدس کو مالی اور انتظامی طور پر مستحکم کیا اور اطمینان سے دمشق کی طرف چلے گئے، جہاں رعایا نے دھوم دھام سے ان کا استقبال کیا۔ واضح رہے کہ صلاح الدین کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار باکر پر عظیم الشان حکومت کی۔
صفر ۵۸۹ھ/ ۱۱۹۳ء میں وہ بیمار ہوئے اور چودہ روز بعد 55 برس کی عمر میں فوت ہوگئے۔ ان کے عزّاہ و اقارب ان کے شیدائی تھے۔ صلاح الدین ایوبی کا اقتدار، ان کی صلاحیت، رحم دلی، کدا ترسی، عفو و درگزر اور بردباری میں مضمر تھا۔
صلاح الدین اپنی رعایا میں محترم و مقبول تھے۔ یورپ میں انہیں بہادری کا نمونہ مانا جاتا ہے۔ انہوں نے کبھی بلا وجہ سختی کا اظہار نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کا نام آج بھی قائم ہے۔ مسلمانوں کیلئے ان کی شخصیت روشنی اور ہدایت کا مینار رہی ہے۔ وہ علوم دینیہ دلدادہ اور علماء کے سرپرست اور تعمیرات کے شائق تھے۔