ایسے ایسے لوگ بھی دنیا میں پیدا ہوئے، انہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے سینکڑوں سال گزر چکے ہیں مگر تاریخ میں ان کا نام آج بھی زندہ ہے اور ان کے کارناموں کو سنہرے حروف سے لکھا جا چکا ہے۔ انہی میں سے ایک نام حاتم طائی کا ہے، جو اپنی سخاوت کے حوالے سے مشہور تھا اور اس کی سخاوت کے کئی قصے زبان زد عام ہیں۔
حاتم طائی کا نام حاتم بن عبدالله بن سعد بن الحشرج الطائی القحطانی ہے۔ یہ نجد کا رہنے والا تھا، نہایت بہادر اور دلیر تھا، شعر و شاعری سے خاصی دلچسپی تھی، جودو سخا میں اس کی مثال نایاب تھی۔ حاتم طائی کا نام زبان پر آتے ہی ایک عظیم اور بے مثال سخی کا تصور لوگوں کے ذہن و دماغ میں اُبھر آتا ہے۔ اس کی وفات رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کے آٹھویں سال ہوئی۔ (حوالہ: الاعلام ۱۵۱/۲)
اسلامی تاریخ کے حوالے سے المستجاد للتنوخی کتاب میں ہے کہ کسی نے حاتم طائی سے پوچھا:
ترجمہ: ‘‘کیا کبھی ایسا ہوا کہ کوئی شخص جودو میں آپ پر سبقت لے گیا ہو۔’’
حاتم طائی نے جواب دیا: ہاں ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ مجھے قییلۂ طے کے ایک یتیم کے گھر ٹھہرنے کا موقع ملا، اس کے پاس دس بکریاں تھیں، اس نے میری مہمانی کی خاطر ایک بکری ذبح کی اور دسترخوان پر میرے آگے اس کا مغز پیش کیا۔ مجھے مغز کا وہ حصہ بہت ہی لذیذ لگا اور میں نے کھانے کے ساتھ ہی کہا:
ترجمہ: ‘‘واللہ! کس قدر لذیذ ہے۔’’
یتیم لڑکے نے جب میری زبان سے یہ الفاظ سنے تو اس نے ایک ایک کر کے ساری بکریوں کو ذبح کر کے ان کا مغز میرے آگے پیش کر دیا، مجھے اس کا علم نہیں تھا کہ میری خاطر اپنی ساری بکریاں ذبح کر دی ہیں جب میں واپسی کیلئے اس کے گھر سے نکلا تو میری نگاہ گھر کے اردگرد پھیلے خون پر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ اس نے بکریوں کو ان کی رسیوں سمیت ہی ذبح کر ڈالا ہے۔ میں نے اس یتیم سے مخاطب ہو کر کہا:
ترجمہ: ‘‘تم نے ان ساری بکریوں کو کیوں ذبح کر ڈالا۔’’
وہ کہنے لگا:
‘‘سبحان اللہ! آپ (جیسے میرے مہمان) کو کوئی ایسی چیز اچھی لگے جو میرے قبضے میں ہو اور میں بخل سے کام لے کر آپ سے اسے روک رکھوں؟ یہ تو عربوں کی شان میں ایک گستاخی اور غیب ہوگا!’’
حاتم طائی سے پوچھا گیا:
ترجمہ: ‘‘پھر آپ نے بطورِ عوض اس یتیم لڑکے کو کیا دیا؟’’
حاتم طائی نے کہا:
میں نے اس یتیم کو تین سو سرخ اونٹنیاں اور پانچ سو بکریاں دیں۔
یہ سن کر لوگوں نے حاتم طائی سے کہا:
ترجمہ: ‘‘پھر تو آپ اس سے زیادہ سخی ہوئے۔’’
حاتم طائی نے ان کے جواب میں کہا:
ترجمہ: ‘‘نہیں! بلکہ وہ یتیم مجھ سے زیادہ سخی تھا کیونکہ اس نے اپنی ملکیت میں موجود سب کچھ سخاوت کر دی جبکہ میں نے اپنی ملکیت کا ایک چھوٹا سا حصہ دیا۔’’
(المستجاد للتنوخی، ص ۲۰۳)