تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

ساحلِ سندھ اور اسکولوں کے نام پر تباہ حال ڈھانچے

Sahil e sindh aur schools ke naam per tabah haal dhaanche
  • واضح رہے
  • فروری 13, 2021
  • 1:34 صبح

21 برس قبل آنے والے طوفان میں بدین، تلہار، ماتلی کے کئی اسکول تباہ ہوگئے تھے، جو آج تک بحالی کے کام کیلئے حکومتی توجہ کے منتظر ہیں

بدین: سندھ کی ساحلی پٹی پر اسکولوں کے نام پر نظر آنے والے تباہ حال ڈھانچے تعلیم کے حوالے سے صوبائی حکومت کی ترجیح اور ویژن کی واضح مثال ہیں۔ سندھ کے محکمہ تعلیم کی عدم دلچسپی اور لاپرواہی کے سبب ضلع بدین سمیت ساحلی علاقوں کے کٸی اسکولوں کی عمارتیں نہ ہونے کے سبب سینکڑوں طلبہ وطالبات جھونپڑی نما اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

واضح رہے کہ آئین پاکستان کے تحت تعلیم حاصل کرنا 5 سے 16 برس تک کے ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ تاہم سندھ میں ساحلِ سمندر کے قریب بسنے والے ہزاروں بچوں کو بالواسطہ طور پر اس حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ کیونکہ تعلیمی مراکز کی حالت ایسی نہیں کہ وہاں بچے علم حاصل کرسکیں۔

کٸی اسکول تو ایسے ہیں جن کی عمارتیں مرمت اور بحالی کا کام نہ ہونے کے سبب تباہ حالی کا شکار ہیں اور وہاں کسی بھی وقت (خدانخواستہ) کوئی سانحہ جنم لے سکتا ہے۔ ان اسکولوں میں سینکڑوں طلبہ وطالبات کی زندگیاں داو پر لگی ہوٸی ہیں۔

ضلع بدین میں کٸی ایسے اسکول موجود ہیں کہ سینکڑوں طلبہ وطالبات سردی ہو یا گرمی درختوں کے ساٸے میں اپنی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ضلع بھر میں ایسے درجنوں اسکول موجود ہیں جن میں فرنیچر نہ ہونے کے باعث بچے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

دوسری طرف محکمہ تعلیم سندھ اور سندھ حکومت کی جانب سے تعلیم عام اور مفت کرنے دعوؤں کا ان اسکولوں کی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

Sahil e sindh aur schools ke naam per tabah haal dhaanche

واضح رہے کہ بدین سمیت تلہار، ماتلی، گولارچی، ٹنڈوباگو و دیگر چھوٹے و بڑے شہروں یا ساحلی علاقوں میں 1999 میں آنے والے سمندری طوفان اور 12-2011 میں سیلاب اور بارشوں سے تباہ حالی کا شکار ہونے والے تعلیمی ادارے کٸی سال گزر جانے کے باوجود بھی بہتر نہیں ہوسکے ہیں۔

ان اسکولوں کی مرمت کی گٸی اور نہ ہی ان اسکولوں کی از سر نو تعمیر پر کوئی توجہ دی گٸی۔ ایسے بھی علاقے ہیں جن کے درجنوں اسکول تباہ حالی کے سبب کٸی سالوں سے بند پڑے ہوٸے ہیں۔ ان اسکولوں میں سینکڑوں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات تعلیم سے محروم ہوکر رہ گٸے۔

کٸی ایسے اسکول بھی مذکورہ اضلاع میں موجود ہیں جہاں سمندری طوفان اور سیلابی بارشوں کے متاثرین کو کیمپ بناکر رہاٸش دی گئی۔ یہ متاثرین اسکولوں کے فرنیچر کو جلا جلا کر اپنا چولہا چلاتے رہے اور اس پر کھانا بنایا۔ اب یہاں فرنیچر تو کجا اس کی راکھ بھی نظر نہیں آتی۔

بدین اور اطراف کے اضلاع میں ایک سو زاٸد ایسے اسکول موجود ہیں جن کے ڈھانچے تباہ ہونے پرگوٹھ والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جھونپڑے نما کمرے بناکر ان میں تدریسی عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ بہت سے اسکول درختوں کے ساٸے تلے چل رہے ہیں۔

علاقے کی سماجی شخصیات کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت تعلیم کیلئے کروڑوں روپے خرچ کرکے تعلیمی اداروں کو میڈیم انگلش بنانے کے دعویدار بنی ہوٸی ہے۔ جبکہ بدین کے تعلیمی اداروں کو دیکھ کر انداز لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم کتنی ترقی کررہی ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے