صحافت کا مفہوم:۔
انسانی زندگی میں خبروں کو ہمیشہ سے اہمیت حاصل رہی ہے۔ قدرت نے انسان کو تجس کا مادہ بھی ایسا عطا کیا ہے کہ وہ رات اور دن نئے نئے حالات و واقعات کی تلاش میں رہتا ہے اور اس کی یہ پیاس کبھی بجھتی نظر نہیں آتی ۔تہذیب و تمدن کے ارتقاء کی طرف انسان کا ہر قدم دراصل اسی جذبہ تجس کے ماتحت اٹھا ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضا یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کے حالات سے باخبر رہے۔ صحافت عربی زبان کے لفظ ’’صحف‘‘سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی کتاب، رسالہ یا صفحہ ہیں۔ انگریزی زبان میں اسکا متبادل لفظ ’’جرنلزم‘‘ہے جو لفظ ’’جرنل ‘‘سے بنا ہے اس کے لفظی معنی ہیں ’’روزانہ حساب کا بہی کھاتہ ‘‘یا ’’روز نامچہ‘‘زمانہ قدیم میں صحف یعنی صحیفہ اور صحائف کی اصطلاحتیں مقدس تحریروں کیلئے مخصوص تھیں۔
قرآن مجید میں لفظ صحیفہ آٹھ مقامات پر آیاہے۔ مقدس کتب یا آسمانی صحائف کے قلمی نسخے تیا رکرنے والے خوش نویس ’’صحافی ‘‘ کہلاتے تھے۔پریس کی ایجاد کے بعد جب ’’جرنلزم ‘‘ نے رواج پایا اور اخبارات و جرائد کا دور دورہ ہو ا تو صحافت اخبارات و جرائد کے کاروبار کا انتظام و انصرام ،ایڈورٹائزنگ وغیر ہ تمام جرید ی یا اخباری مراحل صحافت ہی سے مختلف شعبے شمار ہونے لگے ۔ریڈ یو اور ٹیلی ویژن کی ترویج کے بعد حالات حاضرہ سے متعلق اظہار و ابلاغ کی تما م صورتیں بھی صحافت ہی کا ایک شعبہ شمار ہونے لگیں۔چنانچہ فی زمانہ ’’صحافت ‘‘ کی اصطلاح ان تما م اجزاء پر محیط ہے جن کی وساطت سے خبریں اور خبری تبصرے عوام تک پہنچتے ہیں جب کہ دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے عوامی دلچسپی کے جملہ واقعات اوران واقعات کو متاثر کرنے والی سوچ سرگرمیاں اور نظریات صحافی کیلئے بنیادی موا د کا کام دیتے ہیں۔
صحافت کی تعریف:۔
ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اپنی کتاب ’فن صحافت ‘میں لکھتے ہیں کہ:
۱۔صحافت کا لفظ ’’صحیفہ سے نکلا ہے صحیفہ کے لغوی معنی ہیں کتاب یا رسالہ ۔بہر حال عملاً ایک عرصہ دراز سے صحیفے سے مراد ایسا مطبوعہ مواد ہے جو مقررہ وقفوں کے بعد شائع ہوتا ہے چنانچہ تمام اخباراور رسائل صحیفے ہیں اور جو لوگ ان کی ترتیب و تحسین اور تحریر سے وابستہ ہیں انہیں صحافی کہا جاتا ہے اور کے پیشے کو صحافت کا نام دیا گیا ہے ۔
۲۔لیزلی سٹفین کا کہنا ہے کہ’صحافت ان معاملات کو ضبط تحریر میں لاکر استفاد ہ کرنے کا نام ہے۔جن کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے‘۔
۳۔جریدہ ’ٹائم ‘کے ایرک ہوجنس کہتے ہیں کہ ’صحافت معلومات کو جگہ سے دوسری جگہ دیانت بصیرت اور رسائی سے ایسے انداز میں پہنچانے کا نام ہے جس میں سچ کی بالادستی ہواور واقعات کی اطلاع لوگوں کو وہی دیں جو وہ چاہتے ہیں جب کہ ایک دوسرے فلسفے کا کہنا ہے کہ لوگو ں تک وہ حقائق پہنچائیں جن کو انہیں جاننا چاہیے۔
صحافت کی اہمیت :۔صحافت کا دائرہ اثر تمام شعبہ ہائے زندگی پر بالواسطہ اور اور بلاواسطہ ہے ریڈ یو ،ٹی وی کی ایجاد سے پہلے اور ان کی ترقی کی موجودہ دور تک پوری تاریخ ایسی مثالوں سے پُر ہے جس میں صحافت نے براہ راست اور بالواسطہ عوام الناس کو متاثر کیاہے ۔سچ تو یہ ہے کہ آج بھی ہم صبح اخبار نہ پڑلیں یا ٹی وی سے خبریں نہ سن لیں تو تمام دن ایک تشنگی اور ادھورے پن کا احساس رہتا ہے جہاں تک پریس کا تعلق ہے یہ ایک صنعت کے طور پر ملک کے معاشی نظام پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور کسی ملک کے سیاسی نظام میں تو اس کا عمل دخل بہت زیادہ ہے کسی ملک جو بھی سیاسی نظام ہے پریس اسے مستحکم بنانے یا اس میں تبدیلیاں لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اخبارات کے کالم اداریے مضامین ایڈیٹر کے نا م خطوط افکار و مسائل عوام کی آرا ء وغیرہ یہ سب کسی ملک کامزاج بنانے میں اہم اور بھر پور حصہ لیتے ہیں پریس کا ایک بنیادی اور اہم مقصد حکومت اور عوام کے مابین رابطہ پیدا کرناہے۔
عدم رابطہ کی صورت کے لوگ اور انجمنیں اور تشریح کیلئے پریس کا سہار ا لیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ صحافت کو ملک کو’’ چوتھا ستون‘‘ کہا جا تا ہے ۔آج ٹیلی فون ،وائرلیس اور سٹیلایٹ کے نظام نے ساری مشکلات آسان کر دی ہیں اب دینا کے کسی حصے میں کوئی اہم واقعہ ہو تو چند لحموں میں اس کی خبر دنیا میں پھیل جاتی ہیں اس طرح طباعت کے طریقوں میں وہ حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے جس کو دیکھ کر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحافت کا دائرہ اثر زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے۔
صحافت اقوام کو ایک شیرازہ اتحاد میں منسلک کرتی ہیں۔
آج سائنس کی ترقی اور ایجادات نے وقت اور فاصلے کے تصور کو مٹا دیا ہے اب اقوام عالم میں باہمی ربط اور میل جول اتنا بڑھ گیاہے کہ دنیا کے سارے مذہبی ،معاشی او ر سماجی قوانین آپس میں ایک دوسرے سے متصادم ہیں اور اقوام عالم کے ایک دوسرے سے اس قدر قریب ہوجانے کی وجہ سے ان میں ربط و اتحادقائم رکھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور صحافت ہے صحافت ہی قوتوں کو ایک شیرازہ اتحاد میں منسلک کرتی ہے۔
صحافت افراد میں ایثار کا جذبہ پید ا کرتی ہے
جن ممالک میں صحافت آزاد بنیادوں پر قائم ہے اور اخبارات حریت و آزادی کے علمبراد ہیں وہاں کے باشندوں میں قوم اور ملک کیلئے ہرقسم کے ایثار اور قربانی کرنے کا جذبہ پوری طرح موجود ہے اوریہ سب صحافت کے طفیل ہے یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں آمریت قائم ہوئی وہاں سب سے پہلے ’’پریس‘‘یعنی عوامی اقتدار کی سب سے بڑی قوت پر قبضہ حاصل کیا گیا اور اسے تبصرہ اور آزادانہ طور پر رائے عامہ کو متاثر کرنے سے یکسر محروم کر دیا گیا چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحافت افراد میں ایثار کا جذبہ پیدا کرنے کا بہت بڑ ا ذریعہ ہے۔
صحافت نفسیات عامہ سے آگاہی کا نام ہے
ذہین انسانی کو صحافت کا خام مواد کہا جاتا ہے اور صحافت نگاری نفسیات عامہ میں مسلسل مہارت حاصل کرنے کا نام ہے مہذب ممالک میں پریس سے بڑھ کر رائے عامہ متعین کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ملک و قوم کے احساسات ،خیالات اور رجحانات کی صیحح ترجمانی کر ناایک بڑی ذمہ داری ہے اگر ایک طرف اخبار رائے عامہ کی نمائندگی کرتے ہیں تو دوسری طرف رائے عامہ سے متاثر بھی ہوتے ہیں اگر کوئی اخبار ملک و قوم کی جائز خواہشات کے خلاف کوئی راہ عمل اختیار کر ے تو ا س کا وقار اور اعتبار ختم ہو جاتا ہے ۔
صحافت کوایک بڑی تعلیمی اہمیت بھی حاصل ہے
ہر علم و فن کی معلومات سادہ اور سلیس زبان میں صحافت ہی فراہم کرتی ہے جس سے ہر شخص یکساں طور پر استفاد ہ کرسکتا ہے تعلیم ختم کرنے کے بعد لوگ دنیا کے معاملات میں ایسے الجھ جاتے ہیں کہ انہیں اپنی تعلیم یا مطالعہ جاری رکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔صحافت ان ک ذوق تعلیم کی تکمیل کرتی اور انہیں نئی نئی معلومات اور خیالا ت سے واقف کراتی ہے۔
صحافت قوم کے جذبات وا حساسات کا آئینہ ہے
ہر ملک کی صحافت وہاں کے باشندوں کے جذبات اور احساسات کا آئینہ ہوتی ہے اگر قوم ترقی یافتہ اور روشن خیال ہے توصحافت بھی ترقی یافتہ اور روشن خیا ل ہو گئی اور اگر قوم تباہ حال اور محکوم ہے تو صحا فت بھی اسی طرح ہو گی لیکن اس کے باوجودصحافت ہی سے غلامی اور محکومیت کی زنجیریں کاٹی جاسکتی ہیں ۔غرضیکہ جس قوم کی صحافت کا نصب العین حریت اور آزادی ہو اس قوم کے عروج کا ستارہ بلند ہو کر رہے گا ۔اور اس کا مقام دنیا کی آزاد اقوام کے دوش بدوش ہوگا۔
۔۔۔
تحریر ارسلان سندھو سکھیکی منڈی