ہیومن رائٹس واچ کے مطابق شہزادہ فیصل کو حراست میں رکھنے کے مقام اور ان کی حالت سے متعلق کوئی معلومات نہیں ہیں۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اسلئے اٹھایا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ موجودہ سعودی شاہ سلمان کی موت یا عہدے سے ہٹائے جانے کی صورت میں ولی عہد محمد بن سلمان کو سعودیہ کا فرمانروا بنانےمیں آل سعود میں کوئی دوسری رائے نہ پائی جاتی ہو۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مارچ کے آغاز میں سعودی حکام نے شاہ سلمان کے بھائی شہزادہ احمد بن عبد العزیز اور سابق ولی عہد شہزادہ محمد بن نیف کو بھی گرفتار کیا تھا جنھیں سال 2017 میں ولی عہد کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے نظر بند کردیا گیا تھا۔مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اقدامات سعودی عرب میں بادشاہ کے اختیارات رکھنے والے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوششوں میں سے ایک ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطیٰ ڈویژن کے نائب ڈائریکٹر مائیکل پیج نے کہا کہ ہمیں شہزادہ فیصل کو بھی سعودی عرب میں ایسے افراد میں شمار کرنا ہوگا جنھیں کسی واضح قانونی بنیاد کے بغیر زیر حراست رکھا گیا ہے۔
واضح رہے کہ شہزادہ فیصل نے دسمبر 2017 میں گرفتاری کے بعد سے حکام کو عوامی طور پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا ہےجبکہ انکاخاندان ان کی صحت کے بارے میں فکرمند ہے کیونکہ وہ دل کے عارضے میں بھی مبتلا ہیں۔ سعودی حکام کی جانب سے سال 2017 میں بدعنوانی کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا گیا تھا جس سے شاہی خاندان کے ارکان، وزراء اور تاجروں سمیت درجنوں متاثر ہوئے تھے۔ شہزادہ فیصل بھی ان افراد میں شامل تھے جنھیں 2017 کے آخر میں رہا کیا گیا تھا۔