مشہور رومانوی داستان ہیررانجھا کے مرکزی کردار رانجھا کا آبائی شہر تخت ہزارہ زبوں حالی کا شکار ہے ، صدیوں پرانی تاریخی عمارات منہدم ہونا شروع ہوگئیں ہیں معاشی عدم استحکام اور بیروزگاری سے تنگ آکر لو نقل مکانی کرگئے ہیں اگر حکومت اس قومی ورثے کو ایک تفریحی مقام کا درجہ دیتی تو وطن عزیز کے علاوہ بیرون ملک سے بھی سیاح تخت ہزارہ کا رخ کرسکتے تھے تفصیل کے مطابق مشہور رومانوی داستان ہیر رانجھا کے مرکزی کردار رانجھاکے آبائی قصبہ تخت ہزارہ اپنی ایک الگ شناخت اور تاریخی حیثیت رکھتاہے۔ تاریخی حقائق سے یہ پات ثابت ہوتی ہے کہ جب مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا تو پنجاب میں سکھوں کی لوٹ مار کا بازار گرم ہوا۔ اور تخت ہزارہ طوائف الملوکی کا شکارہوگیا۔ سکھوں نے اس عظیم تاریخی شہرکی اینٹ سے اینٹ بجادی،یہاں کے باسی کثیر تعداد میں یہ شہر چھوڑکر محفوظ مقامات پر چلے گئے۔ 1785ء میں لوگ یہاں پر دوبارہ آکر آباد ہونا شروع ہوئے۔اس طرح عروج وزوال کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد یہ شہر ایک چھوٹے سے گاؤں کی حیثیت اختیار کرگیا۔ مختلف تاریخی حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رانجھا کا اصل نام دھیدو تھا۔ اس کے والد کانام موجدین تھا۔ اور وہ کھیتی باڑی کرتا تھا۔ تخت ہزارہ کے شہرت بھی رانجھا کے دم قدم سے ہے۔ اور قصہ ہیررانجھا کو سید وارث شاہ نے بقائے دوام بخشا۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تحت ہزارہ اس پانچ ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل ہے۔ جب کہ صرف بیس سال قبل اس قصبہ کی آبادی پندرہ ہزارنفوس پر مشتمل تھی۔ روزگار کے مواقع اور کاروباری وسائل ختم ہونے کے بعد یہ قصبہ زوال پزیر ہوچکاہے۔ اور یہاں کے مکین تلاش رزق کے لئے نقل مکانی کرکے یہاں سے جاچکے ہیں۔ اور ان میں بتدریج اضافہ ہورہاہے۔
ضلع سرگودھا کا یہ پرفضا مقام تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ قصبہ ضلع سرگودھا کوٹ مومن سے سے 40 کلومیٹر دور مشرق کی جانب دریائے چناب کے کنارے واقع ہے۔ دریا کے اس پار ضلع حافظ آباد،ضلع گوجرانوالہ اور صرف تین کلومیٹر کے فاصلہ پر ضلع منڈی بہاؤالدین اور ضلع گجرات کی حد شروع ہوتی ہے۔ اس طرح قصبہ تخت ہزارہ چار اضلاع کے سنگم پرواقع ہے۔ قصبہ میں قدیم چھوٹی اینٹوں سے بنائی گئی عالیشان عمارات اورچوبارے دیکھ کر تاریخ وثقافت کے نئے رنگ اجاگر ہوتے ہیں۔ اور یہ عمارتیں عہدرفتہ کی یاد دلاتی ہیں۔ آج معاشی ناہمواریوں کے سبب اس قصبے کے درودیواردکھ بھری داستان بن کر رہ گئے ہیں۔ قصبہ میں درودیوار پر منقش کاریگری عہدرفتہ کی ایک عظیم ورثہ ہے۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ صرف ایک یاد گار بن کر رہ جائے گا۔ مقامی ادیب میاں محمد شفیع مرحوم نے اپنی کتاب صدف ریزے میں تخت ہزارہ کے ثقافتی ورثہ کے ساتھ ساتھ یہاں پر موجود 42سالہ قدیم ایک مسجد کا ذکر کیا ہے۔جومسجد میاں رانجھا کے نام سے موسوم تھی، جس کے تاریخی آثار آج بھی موجود ہیں۔ مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کی لکھی گئی کتاب تزک بابری میں بھی تخت ہزارہ کے متعلق بہت کچھ لکھا گیاہے۔
مغلیہ دور میں ایک بزرگ شاہ شہام الدین نامی گزرے ہیں۔ جن کا مزار تخت ہزارہ میں موجود ہے۔ جہاں ہرسال عرصہ دراز سے بیساکھی کے پہلے اتوار ایک عظیم الشان میلہ کا اہتمام کیا جاتاہے۔ اگرچہ تخت ہزارہ کی دھرتی نہایت زرخیزہے اور اس میں اگائی جانے والی اجناس پنجاب بھر میں سپلائی کی جاتی ہے۔ مگر بڑے شہروں تک آسان رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے کسان بھی پریشان حال ہیں۔ بڑھتی ہوئی نقل مکانی کے سبب خدشہ ہے کہ اس تاریخی حیثیت کے حامل قصبہ کے آثار بہت جلد ختم ہوجائیں گے۔ محکمہ آثار قدیمہ کو چاہیئے کہ اس تاریخی حیثیت کے حامل میاں رانجھے کے آبائی وطن کے تاریخی آثاروں کو محفوظ کرے اگر ایسا ممکن ہو جائے تو ملکی اور غیر ملکی سیاح اس طرف آسکتے ہیں جس کیلئے پنجاب حکومت کی توجہ انتہائی ضروری ہے۔