برما نے روہنگیا مسلمانوں کیخلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والے اپنے 7 فوجیوں کو سزا ختم ہونے سے 9 برس قبل رہا کر دیا ہے۔ روہنگیا نسل کشی میں ملوث فوجیوں نے برطانوی خبر رساں ادارے کے اُن دو رپورٹرز سے بھی کم دن جیل میں گزارے، جنہوں نے پسے ہوئے اقلیتی طبقے پر ڈھائے جانے والے بدترین مظالم دنیا کے سامنے بے نقاب کئے تھے۔
محکمہ جیل خانہ جات کے ڈائریکٹر جنرل مینت سوئے نے خبر پر مزید تفصیلات دینے سے گریز کرتے ہوئے صحافیوں سے کہا کہ اب یہ فوجی ان کی حراست میں نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والی برمی فوج کے 4 افسران اور 3 فوجیوں کو 2018 میں 10 روہنگیا دیہاتیوں کو بہیمانہ انداز میں قتل کرنے پر 10 برس قید با مشقت سزا سنائی گئی تھی۔ اس اقدام کو نام نہاد امن نوبیل انعام یافتہ برمی رہنما آنگ سان سوچی اور آرمی چیف من آنگ لینگ نے فوج میں جاری احتساب کے عمل کے طور پر پیش کیا تھا۔
تاہم روہنگیا مسلمانوں کے قاتل فوجیوں کو سزا سنائے جانے کے محض ایک برس کے اندر ہی انہیں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ جانبدار ذرائع ابلاغ کے مطابق ان فوجی افسران اور سپاہیوں کو برمی فوج کے دباؤ پر رہائی ملی ہے، جو منظم منصوبہ بندی کے تحت روہنگیا نسل کو ان کے آبائی علاقوں سے دربدر کرنے کی ذمہ داری ہے۔
2017 میں برمی فوج نے روہنگیا مسلمانوں پر شدت پسندی کا الزام عائد کرتے ہوئے ان پر بمباری کر دی تھی، سفاکانہ آپریشن کے دوران روہنگیا افراد کے ہزاروں گاؤں نذر آتش کئے گئے اور ان کا قتل عام کیا گیا، جس کے باعث لاکھوں روہنگیا اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور آج ہزاروں لاکھوں برمی مسلمان بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں مہاجرین جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ادھر ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے ایشیا فل روبرٹسن نے قاتل فوجیوں کی رہائی کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقدام سے معلوم ہوتا ہے کہ برمی فوج روہنگیا مسلمانوں کو انسان نہیں سمجھتی اور ان کیخلاف جرائم کرنے والوں کو جوابدہ بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔