جنوبی ایشیا پر ۳۵ برس حکومت کرنے والے شمشی الدین التمش نے اپنی بیٹی رضیہ کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ ان کے رضیہ سلطانہ سمیت آٹھ بچے تھے، لیکن رضیہ ان کے سب سے زیادہ قریب تھیں۔
رضیہ سلطانہ ۱۲۰۵ میں پیدا ہوئیں اور ان کا عہد حکومت ۱۲۳۶ میں شروع ہوا۔ جبکہ ان کی موت محض ۳۵ برس کی عمر میں ہوئی۔ گوکہ ان کے والد اور بادشاہ التمش، رضیہ کو سلطنت کی باگ دوڑ سنبھالنے کا اہل سمجھتے تھے، لیکن ان کے بھائیوں نے ان کا راستہ روکے رکھا۔
ان کے زیادہ تر بھائی ریاست چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے جسے التتمش نے بہت پہلے محسوس کر لیا تھا۔ رضیہ رنگ و روپ کےعلاوہ بھی ہر اس ہنر سے آشنا تھیں جو حکمران بننے کے لیے ضروری تھا۔
یہی وجہ ہے کہ التتمش نے ان کی پرورش انہی خطوط پر کی۔ تلوار بازی، گھڑ سواری کے ساتھ ساتھ اچھی تعلیم بھی دلوائی گئی نوعمری میں پردہ بھی شروع کروا دیا گیا۔ التتمش نے انہیں اپنا جانشیں مقرر کیا تو خاندان اور پورے ملک میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔
التتمش کے انتقال کے بعد وصیت پر عمل نہیں کیا گیا اور درباریوں نے اس کے ایک بیٹے رکن الدین فیروز کو تخت پر بٹھا دیا۔ وہ عیش پرست انسان تھا۔ حکومت کا حقیقی اقتدار اس کی ماں شاہ ترکان کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے التمش کے کے ایک بیٹے قطب الدین کو بلاوجہ قتل کروا دیا۔
اس کی بے رحمی سے ارکان سلطنت باغی ہوگئے۔ ملتان کا صوبیدار ملک اعزاز الدین ایاز سلطنت پر قبضہ کرنے کیلئے دہلی کی طرف بڑھا تو رکن الدین اپنی فوج لے کر بہرام میں پہنچا۔ امرائے سلطنت اُس کا ساتھ چھوڑ کر دہلی واپس آگئے اور رضیہ لسطانہ کو تخت نشین کردیا۔ شاہ ترکان کو قید میں ڈال دیا گیا۔ رکن الدین، رضیہ سلطانہ کے خلاف بھی آمادہ ہوا، مگر شکست کھا کر گرفتار ہوا۔
رضیہ سلطانہ بڑی زیرک اور تیز فہم خاتون تھیں۔ انہوں نے تمام مخالفوں کو کچل ڈالا۔ انہوں نے خواجہ مہذب الدین حسین کو وزیر مقرر کیا۔ جب ایک حبشی ملک جمال الدین یاقوت، مہتمم شاہی اصطبل کو امیر الامرا کا خطاب ملا تو ترک امرا بگڑ گئے اور انہوں نے ملک التونیہ، حاکم بھٹنڈہ کی قیادت میں بغاوت کردی۔
دراصل رضیہ سلطانہ، ملک جمال الدین یاقوت کو دل دے بیٹھی تھیں، جو ایک غلام تھا۔ یہ بات بٹھنڈہ کے حاکم ملک التونیہ کو سخت ناگوار گزری، کیونکہ وہ رضیہ سلطانہ کو پسند کرتا تھا اور نکاح کا پیغام بھی بھجوا چکا تھا۔
ملک التونیہ کو جب دونوں کی رقابت کی اطلاع ملی تو رضیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ دہلی میں ملک التونیہ کے لشکر اور رضیہ کی فوج کے درمیان شدید لڑائی ہوئی، رضیہ کے لیے وہ بڑا جاں کُن لمحہ تھا جب آنکھوں کے سامنے جمال الدین یاقوت کو مرتے دیکھا۔
رضیہ کو قید کر لیا گیا۔ باغیوں نے ان کے بھائی معزالدین کو بادشاہ بنا دیا۔ امکان یہی تھا کہ رضیہ کو قتل کر دیا جائے گا تاہم التونیہ نے پیشکش کی کہ اگر وہ اس سے شادی کر لے تو وہ جان بخشی کروا سکتا ہے۔
رضیہ سلطانہ نے ملک التونیہ سے شادی کرلی۔ انہوں نے یہ شادی صرف اس لیے کی تھی کہ زندہ رہیں اور پھر سے اپنا تخت حاصل کر سکیں۔ کچھ ہی عرصہ میں انہوں نے التونیہ کو اس بات پر قائل کر لیا کہ دہلی کے تخت کی اصل حقدار وہی ہیں۔
التونیہ اپنی جاب النظر بیگم کی بات پر راضی ہوگیا اور اس نے دہلی پر حملہ کردیا۔ تاہم دہلی میں رضیہ سلطانہ کے بھائیوں کی مضبوط حکومت بن چکی تھی۔ انہیں مخالف فوج کے ہاتھوں شکست ہوگئی۔ جنگ ہارنے کے بعد رضیہ اپنے شوہر کے ہمراہ جان بچانے کیلئے کرنال کی طرف چلی گئیں، جہاں ڈاکوؤں کے ہاتھوں دونوں میاں بیوی قتل کر دیئے گئے۔