نبی اور رسول کا تصور مختلف قوموں ، زبانوں میں مختلف ہوگا ۔ بہرحال اشرف المخلوقات میں سے بھی اس اشرف ترین مخلوق کا تصور مسلمانوں میں یہ رہا ہے کہ وہ انسان کامل ہے ۔ یہ کاملیت ظاہر ہے کہ صرف اچھے انسانی پہلوءوں کے متعلق ہے ۔ انسانی زندگی کے دو ہی بڑے شعبے ہیں ۔ ایک معاش اور دوسرے معاد ۔ دوسرے الفاظ میں ایک تو انسان کے تعلقات انسان اور دیگر مخلوقات کے ساتھ اور دوسرے انسان کے تعلقات اپنے خالق و مالک جل شانہ کے ساتھ ۔ پہلی قسم میں اعلیٰ ترین حکمرانی ہے تو آخرالذکر میں عقائدو عبادات کے متعلق رہنمائی یعنی پیغمبری۔
رسولِ عربی حضرت محمد مصطفےٰﷺ کو بیک وقت یہ دونوں کمالات حاصل تھے ۔ آپ کی زندگی کے ان دونوں پہلوءوں کا استقصاء طویل عمل ہے ۔ اس جلد میں آپ کی صرف اول الذکریعنی سیاسی زندگی کا مطالعہ پیش نظر ہے ۔
لیکن ہر سنجیدہ طالب علم اور ذاتی غوروفکر کرکے ذمہ دارانہ اور مستقل رائے قائم کرنے کے خواہش مند کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول ِ اسلام کی سیرت یعنی سوانح حیات و تعلیماتک مطالعہ بھی کیوں کیا جائے جب کہ آپ وفات پر ساڑھے تیرہ صدیاں گزر چکی ہیں ۔ علوم و فنوں میں بے انتہا ترقی ہوچکی ہے ۔ متمدن قوموں کے ماحول اور تصور حیات میں زمین و آسمان کا فرق ہوچکا ہے ۔ اور آپ ﷺ بھی ہمارے جیسے ہی انسان تھے
اصولی حد تک تو اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ۔ کہ انسانی تمدن و ثقافت کی ترقی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ ’’ہر آمد عمارتِ نو ساخت‘‘ لیکن اس طرح نہیں کہ ادھیڑ بن کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ (کاتتی نقضت غزلھامن بعد قوۃ انکاثا) جاری رکھا جائے، بلکہ اس طرح کہ تعمیرسابق پر جدید کا اضافہ ہوتا رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ قدیم وجدیددونوں عمارتوں کا مالک متمول تر ہوگا بہ نسبت اس شخص کے جس کے قبضے میں صرف کوئی ایک قدیم یا جدید عمارت ہو ۔ البتہ یہ سوال ایک تفصیلی جواب چاہتا ہے کہ خاص محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب (روحنافداہ) کی سیرت کا کیوں مطالعہ کیا جائے اور اس غرض کے لیے کسی اور کا کیوں نہیں
مسلمانوں کا دعویٰ اپنے رسول و ہادی کے متعلق تو یہ ہوگا کہ آپ ﷺ ہی کی ذاتِ والا صفات ہے جس نے ایسے زمانے میں مبعوث ہوکر جب دنیا جہالت و گمراہی کے انتہائی حدود پر پہنچ چکی تھی ۔ اس کو ایک مرتبہ انسانیت صحیحہ کے راستے پر کھڑا کردیا ۔ آج بھی جب ہم مختلف وجوہ کی بنا پر ان ایام جاہلیت سے قریب ترہورہے ہیں تو صرف اس شمع ہدایت سے اکتساب ہی ہماری نجات کا حقیقی باعث ہوسکتا ہے ۔ لیکن ذاتی عقیدے سے قطع نظر، ایک جو یائے حق طالب علم اور ایک ناطر فدار لیکن بامقصد مورخ کو اس سوال کے جواب میں جو کہنا ہے اس میں سے بعض باتیں صرف مسلمانوں سے متعلق ہیں ، بعض باتیں دوسروں سے متعلق ہیں اور بعض باتیں دونوں سے مشترکہ طور پر متعلق ہیں ۔
مسلمانوں کے لیے
آپ کی سیرت جو اہمیت رکھتی ہے وہ کسی تفصیل کی محتاج نہیں اصول فقہ کی کتابوں میں یہ امرمسلمہ ہے کہ آنحضرت کے ہر قول کی طرف آپ کا ہر فعل بھی قانونی حیثیت رکھتا ہے اور سنتِ نبوی سے بھی واجبات، مستحبات، مباحات مکروہات وغیرہ قائم ہوتے ہیں ۔ یوں تو کسی مسلمان کی زندگی اسی وقت اسلامی کہلاتی ہے جب وہ قران مجید کے احکام کے مطابق ہو ۔ لیکن خود قرانِ کریم نے متعدد موقعوں پر سنتِ نبوی کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیا ہے ۔ اور اسے واجب التعمیل قرار دیا ہے ۔ اس سے سنتِ نبوی یا صحیح ومسلمہ سیرت کی حیثیت بھی جزءِ قران نہیں تو کم از کم ضمیمہ قران اور تتمہ قران کی سی ہوجاتی ہے ۔ ایسی چند آیتوں کی طرف یہاں توجہ منعطف کرائی جاتی ہے ۔
’’جو آنحضرت ﷺ تم کو دیں وہ لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاو ۔ ‘‘
’’ آنحضرت تمہارے لیے بہترین نمونہ عمل ہیں ۔ ‘‘
’’ آنحضرت اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے وہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ خداہی کے ارشاد پر مبنی ہوتا ہے ۔ ‘‘
ان اور دیگر آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ پیشوائے اعظم سردار دو عالم کا قول، آپ کا فعل اور جن چیزوں کو آپ ﷺنے صحابہ میں رواو برقرار رکھا ان سب پر عمل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا خود احکام قرانی ۔
غیرمسلموں کے لیے
رسول عربی کی سیرت کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ جب ایک شخص ہم سے یہ بیان کرے کہ میں تمہارے فائدے کی کچھ بات کہنا چاہتا ہوں ، تو کون عقل سلیم رکھنے والا ایسا ہے جو اس بات کو سننے سے انکار کردے ۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی زندگی میں جب پہلی مرتبہ یہ فرمایا تھا کہ میں عالموں کے لیے رحمت بن کر آیا ہوں ، اور میرے لائے ہوئے دین اسلام کے بغیر دنیا اور آخرت کی بھلائی حقیقت میں حاصل نہیں ہوسکتی تو اس پر اوچھی طبیعت رکھنے والوں نے تو ٹھٹھول شروع کیا اور مخالفت پر اتر آئے ۔ سنجیدہ لوگوں نے اس کے برخلاف یہ پوچھا کہ دین اسلام کس کو کہتے ہیں ، اور آپ کی رائے میں ہ میں کیا کرنا چاہیے پھر جواب اور توضیح پر ٹھنڈے دل سے غور کیا اور جس کی رائے میں بات معقول تھی اس نے نے اس دین کو قبول کرلیا ۔ ہادی عالم کے اقوال و افعال اور آپ کا پیش کیا ہوا دین اب تک محفوظ وموجود ہیں ، اور محض آثار قدیمہ کی رتی سے ہاتھی بنانے اور قیاس آرائی و خوش عقیدگی کی ضرورت نہیں ۔
اس کی تشریح بے محل نہ ہوگی ۔ اور دیگر ادیان و مذاہب کی مقدس و الہامی کتابوں میں سے گوتم بدھ کے صرف اقوال ملتے ہیں کوئی کتاب نہیں اور یہ اقوال بھی بروقت قلمبند نہیں ہوئے تھے ۔ ہندو مذہب میں پران، مسرتی،دید کئی چیزیں ہیں ۔ لیکن یہ سب ہزاروں برس صرف سینہ بسینہ چلتی رہیں ۔ آخرتدوین ہوئی بھی تو ایک ہی شخص کے حاٖفظہ کی بنا پر ۔ توریت کی اصل بھی ناپید ہے ۔ اس سے زیادہ مرتبہ وہ دنیا سے ناپید ہوگئی ۔ اور محض حافظوں سے اس کو دوبارہ لکھا گیا ہے ۔ اور اب جو نسخے ملتے ہیں ان میں باہم ہزاروں الفاظ وآیات کے متعلق اختلافِ روایات پایا جاتا ہے ۔ اس میں بہت سے چیزیں لاپتہ ہیں ۔ بہت سے اجزاء کے متعلق صاف نظر آتا ہے کہ وہ بعد کے اضافے ہیں ۔ (مثلاً حضرت موسیٰ کی طرف منسوب کتاب میں خود ان کے وفات پانے کا ذکر وغیرہ) انجیل کا حال یہ ہے کہ اس کو حضرت عیسیٰ نے کبھی نہیں لکھوایا ۔ (اگر لکھوایا ہے تو وہ اصل انجیل اب لاپتہ ہے) جو چیز اب ملتی ہے وہ ان کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں کا چشم دیدگوش شنید بیان ہے کہ ان کے پیغمبر اس طرح پیدا ہوئے، زندگی بھر فلاں طرح رہے، فلاں وقت فلاں بات کی وغیرہ ۔ گویا یہ سوانح عمری ہے کہ کوئی الہامی کتاب اور ربانی ہدایت نامہ نہیں ۔ ایک مزید بات یہ قابل ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایسی سوانح عمریاں انجیلیں بھی بکثرت تھیں ۔ اور لازماً ان میں بڑا اختلاف بھی تھا ۔ ایک مرتبہ ان سب کو ایک کے اوپرایک رکھ کر ہلایا گیا اور جوگر پڑیں وہ الگ اور جو نہ گریں وہ الگ کرلی گئیں ، اور اس طرح آج کل کی مروجہ چاروں انجیلیں صحیح قرار پاکر اختیار کر لی گئیں ، اور باقی تلف کردی گئیں ۔
اب قران مجید کو دیکھئے، جیسے ہی کوئی آیت نازل ہوتی، ابتدائے نبوت ہی سے رسول ِاکرم ﷺ اس کو فوراً لکھوادیتے رہے، اور کاتبوں کو یہ ہدایت بھی کرتے تھے کہ فلاں آیت کا مقام تا حال نازل شدہ قرآن میں فلاں سورۃ میں فلاں آیت کے بعد ہے ۔ اس کو ساتھ ساتھ بہت سے صحابہ زبانی بھی نماز کی ضرورتوں سے یاد کرتے جاتے تھے ۔ اور یاد کی ہوئی چیزوں کو رسول اکرمﷺ کو سنایا بھی کرتے تھے ۔ لوگ تحریری نقلیں بھی لے لیا کرتے تھے ۔ جب آنحضرت ﷺ کی وفات ہوئی تو چند ماہ بعد ہی خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق نے عہدنبوی کے سرکاری کاتبین وحی کی ایک کمیٹی مقرر کی کہ پورا قران مجیدایک کتاب کی صورت میں لکھا جائے،اور ہدایت دی کہ ہرہر لفظ و آیت کو علاوہ حفظ کے دو دو تحریری ثبوتوں کے بعد درج کیا جائے ۔ عہد نبوی کے آخر میں کامل قران کے کم سے کم چار پانچ سو حافظ تھے جن میں ارکان مجلس تدوین بھی شامل تھے اور متفرق سورے جن کو یاد تھے ان کی تعداد ہزاروں تھی ۔ اس احتیاط سے تدوین ہونے اور پھر آئندہ بھی حفاظ کا سلسلہ ابتک جاری رہنے سے قران مجید اس قدر صحت کے ساتھ ابتک محفوظ ہے کہ کسی اور بانی مذہب کی الہامی کتاب اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچتی ۔
غرض ہم ایک ایسی شخصیت کا مطالعہ کرسکتے ہیں جس کے عام حالات بھی تفصیل سے محفوظ ہیں اور جس کی تعلیم کی اساس یعنی اس پر نازل شدہ الہامی کتاب بھی ہوبہوبجنسہ محفوظ و موجود ہے، اس کے مندرجات کے متعلق کوئی چھوت چھات نھی نہیں کہ اجنبیوں کو پڑھنے بلکہ سننے سے بھی روکا جائے ۔ بلکہ صلائے عام یہ ہے کہ ہر شخص اس کو پڑھے ۔ اور بطور خود اپنے لیے فیصلہ کرلے کہ وہ اس کو قبول کرسکتا ہے کہ نہیں ۔ اور جو قبول نہ کرے اس کے لیے بھی صاف حکم ہے کہ ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ (دین میں کوئی جبر نہیں ) اور پھر یہ قرآن وہ ہے جو فصاحت میں ہومر اور ڈیما سیتھنس کے، قانون سازی جسٹی نین کے، فی الدنیا حسنتہ میں کاوٹلیا کے، فی الاخرۃ حسنہ میں گوتم بدھ کے، ادب احترام سلف میں کنفوشس، کے چیلنج کا جواب تھا ۔ اور اس کا اپنا یہ چیلنج ہے کہ آنچہ خوباں ہمہ دراند تو تنہاداری، اس نے مرکز گریز اولادِ آدم و حوا کو دوبارہ مرکز کشی کی تعلیم دی ۔ اور ان میں فطری مساوات اور اختیارات فضیلت (اعمالِ صالح کی بنا پر) قائم کی اور جملہ سابقہ مذاہب کا احترام و اعتراف کرتے ہوئے ان کے مقابل اپنی حیثیت صرف یہ بیان کی کہ یہ ایک تجدید صداقت اور بنیادی ولابدواقل قلیل مذہب ہے ۔
ہر کسی کے لیے
چند بنیادی اصول و حقائق سے خود فیصلہ کر لینا ممکن ہے ۔
اسلام کا اصل اصول یہ کہ فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ (یعنی دنیا میں بھی اچھے رہیں اور آخرت میں بھی) دیکھنا یہ ہے کہ دنیوی معاملات میں آنحضرت ﷺ کی سیرت اور طرز زندگی میں ہمارے لیے کیا سبق ہیں ۔
دنیا میں یک حیثیتی بڑے لوگوں کی کبھی کمی نہیں رہی ہے ۔ لیکن اگر ہم مثلاً سکندر اعظم اور نپولین و ہٹلر کو لیں تو ان کی زندگی صرف ایک سپہ سالار جنگ اور فاتح کے لیے مفید مواد مطالعے کےلیے پیش کرسکتی ہے ۔ گوتم بدھ کی زندگی ریاضت و عبادت میں خصوصی دلچسپی رکھنے والوں والوں کےلیے ہی سبق آماز ہوسکتی ہے ۔ ہومرصرف ایک شاعر تھا ۔ افلاطون و ارسطو صرف حکیم و فلسفی تھے ۔ زندگی کے دوسرے شعبوں میں ان کی کوئی بڑی وقعت نہیں ۔ اس کے برخلاف رسولِ عربی ﷺ کی زندگی پر نظر ڈالئے ۔ اس کی ہمہ حیثیت، قول وفعل کی یکسانی تعلیم میں ناقابل عمل مطمحیت کی جگہ عملیت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زندگی ہی میں کامیابی کے لحاظ سے ایک بے نظیر چیز ہے ۔ سیاسی حیثیت کو لیجئے تو آپ نے دس سال کے قلیل عرصے میں جزیرہ نمائے عرب کے نراج (لا حکومتی) میں جہاں زیادہ خود سر خانہ بدوش قبائل میں خانہ جنگیاں ہی رہا کرتی تھیں ، ایک بڑی مستحکم اور بڑی مملکت قائم کردی بہ حیثیت سپہ سالار کے آپ کی لڑائیوں میں فریقین کے بمشکل چند سو آدمی مارے گئے ۔ لیکن دس سال کے عرصے میں تقریباً بارہ لاکھ مربع میل کا رقبہ مطیع اور ماتحت ہوگیا اور عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسی حکومت قائم جو پورے جزیرہ نما کو حلقہ بگوش بناسکی ۔ اور یہ آنحضرت ﷺ ہی کی تعلیم اور تربیت کا نتیجہ تھا کہ عرب جیسی گم نام اور جاہل قوم نے بین الممالک تعلقات میں پہلا قدم رکھا تو کیمرج کے ایک عیسائی مورخ کے الفاظ میں ان سے زیادہ ’’مہذب وحشی‘‘ کبھی فتوحات کے لیے نہیں نکلے تھے ۔ اور فتوحات کی وسعت اور گہرائی کا جو ریکارڈ انہوں نے قائم کیا ہے وہ اب تک کسی قوم سے توڑا نہیں جا سکا ہے، چنانچہ دس ہی سال میں انہوں نے عراق، ایران، فلسطین، شام، مصر،طرابلس، تونس، ترکستان اور آرمینیا کو زیر کرلیا ۔ یہ سب علاقے قریب قریب آج بھی ٹھوس اسلامی علاقے ہیں ۔ اور ان میں سے اکثر کی زبان تک عربی ہی ہوگئی ہے ۔
انتظامی حیثیت لیجئے جس ملک میں کبھی کوئی حکومت قائم ہی نہیں ہوئی تھی ۔ اس میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے باوجود آنحضرت ﷺ نے جو دستورِ مملکت مرتب اور جو نظام حکمرانی قائم فرمایا اس پر عمل دنیا کی ایک عظیم الشان مملکت کے لیے نہ صرف ہر طرح کارآمدو کافی ثابت ہوا ۔ بلکہ جب تک اس پر عمل رہا وہ دنیا کی مہذب ترین حکومت بنی رہی ۔ گاندھی جیسے کٹر ہندو بھی اسے انسانیت کا دور زریں سمجھتے اور کانگریسی ہندو حکومتوں کو مشورہ دیتے رہے کہ اسی کو اپنے لیے نمونہ بنائیں ۔
عمرانی حیثیت سے تقسیم و گردش دولت کا اصول رسول اکرم ﷺ کے ہر مالی حکم میں نظر آتا ہے ۔ تقسیمِ ترکہ، تجدید و صیت، ممانعتِ سود، پس انداز دولت اور جائیداد پر محصول (زکوٰۃ) وغیرہ کی طرف اشارہ کافی ہے، جن کا اصول یہ تھا کہ دولت صرف مالداروں میں نہ گھومتی رہے ۔ اور مال والوں سے لئے ہوئے محصول سے حکومت اپنے ملک کے جملہ محتاجوں کو روٹی مہیا کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھے اور اشتراکیت و سرمایہ داری کے تصادم کو (جو آج بے دین دنیا میں رونما ہے) پیش بینی کرکے شروع ہی میں حل کردیا اور روک دیا ۔
عورت ، مزدور، اور غلام کی حیثیت کے متعلق بھی پیغمبر اسلام کی تعلیم معتدل اور اسی لیے مفید و قابل عمل ہونے میں بے مثل ہے ۔
سماجی اور اخلاقی حیثیت سے آپ ﷺ نہ صرف اچھے معلم ِ اخلاق تھے، بلکہ ایک نادر بات یہ تھی کہ آپ اپنی تعلیم کی سب سے پہلے خود تعمیل کرکے اور دوسروں کو جتنا حکم دیتے اس سے زیادہ خود عمل کرکے اوروں کے سامنے زندہ نمونہ پیش فرماتے تھے ۔ ایک باپ ، ایک شوہر، ایک دوست اور حاکم ایک تاجر ایک انسان کی حیثیت سے آپ کا کردار اتنا بے داغ ہے کہ دشمن بھی اس کو سراہنے کے بغیر چارہ نہیں دیکھتے ۔ علاوہ اور اسلامی اصلاحات کے بت پرستی، شراب اور جوئے، سٹے کی ممانعت مسلمانوں کی ایسی خصوصیت ہے کہ باقی دنیا بھی اب خواہی نہ خواہی اس کو ماننے پر مجبور سی ہو چلی ہے ۔
دنیا میں بہت سے معلم، ہادی اور پیغمبر آئے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کسی کو اپنی زندگی میں اتنی کامیابی نہیں ہوئی جو نبی عربی ﷺ کو ہوئی ۔ دس ہجری میں جب آپ حج کو تشریف لے گئے تو آپ کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ مسلمان تھے، جو ملک کے ہر حصے سے آئے تھے ۔ آنحضرت ﷺ نے دنیا میں جو دین پیش فرمایا اس نے اپنے لیے خود بخود جگہ پیدا کرلی ۔ چین میں کبھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی ۔ مگر چین کے کروڑوں مسلمان اور ہندوستان کے روافزوں نو مسلم اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ اسلام کی اندرونی کشش کتنی ہے ۔ وہ آپ ﷺ ہی تھے کہ تعصبات سے بھری دنیا میں برملا فرماگئے کہ نسل، رنگ یا زبان سے انسان کو دوسرے پر کوئی فوقیت بالکل نہیں ۔ حقیقی فضیلت نکوکاری اور خدا ترسی ہے ۔ (خدا کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معززو مکرم وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو) آپ ﷺ نے اسلام کے اصول پر جس زور سے عمل کرایا اسی کا نتیجہ ہے کہ تمام پست قو میں اسی کو اپنی نجات کا واحد ذریعہ سمجھتی رہی ہیں ۔ اسلام سے زیادہ مساوات کسی اور مذہب میں نظر نہیں آتی اور مثلاً رنگ و زبان کے متعلق فطرت کی تنوع پسندی کو بے اثر بنانے میں اسلام سے زیادہ کسی مذہب و مسلک کو کامیابی نہیں ہوئی ۔
انسانی آبادی کے ہر گروہ کی اپنی الگ تاریخ ، الگ تعصابات، الگ روایات ہیں ۔ اور انسان کو اپنے محسنوں یا بزرگوں کے احترام سے روکنا نہ تو آسان ہے اور نہ ہی اس میں کوئی فائدہ ۔ آسان اور مفید یہی ہے کہ پرانی روایات اور تعصبات و تخیلات کو چھیڑے بغیر (اگرچہ اس کو ایک نیا پس منظر، ایک نئے رخ میں رواں دواں کرکے) کچھ نئی چیزوں کے احترام اور اوروں سے زیادہ احترام کی تعلیم دی جائے، اس کے بغیر مرکز گریز اولادِ آدم و حوا کو دوبارہ ایک مرکز پر آنے کے لیے آمادہ کرنا ممکن نہیں ۔
یہودیوں کو اپنے ہم عصروں میں واحد موحد قوم ہونے وغیرہ کی بنا پر ناز تھا ۔ اگرچہ باقی دنیا میں وہ ملعون تھے ۔ اسلام نے برملا اعتراف کیا کہ( خدا نے تم کو سارے جہانوں پر فضیلت دی) عیسائیوں کو اپنے آبائی مذہب کی بعض خصوصیتوں پر ناز تھا ۔ جس سے باقی ساری دنیا کو انکار تھا ۔ قران نے اس کو بھی قبول کیا کہ عیسےٰ بن مریم (وہ اللہ کے رسول، کلمتہ اللہ اور روح اللہ تھے) لیکن ان دونوں قوموں کو بتایا کہ محض پدرم سلطان بود کافی نہیں عمل کے متعلق خدا کا حساب و کتا فرداً فرداً ہر ایک انسان سے ہوگا ۔ جس خدا نے موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام کو کچھ خصوصیتوں سے نوازا، اسی خدا نے ان سابقہ انبیاء کی تعلیمات کے صحیفوں کے حوادث زمانہ کا شکار ہوکر تلف ہوجانے کی وجہ، اپنی وفور نوازش سے انسانوں پر ان تعلیموں کی پھر سے تلقین و تجدید کرنے کے لیے ایک نبی بھیجا ۔ اور جب تک اس نبی کی تعلیم محفوظ وموجود ہے ۔ کسی مزید نبی کی ظاہر ہے کہ کوئی ضرورت نہیں ۔
انبیاء نبی اسرائیل ہی نہیں ، ان سے قبل اور ان کے بعد کے بھی وان من امۃ الاخلا فیھا نذیر کہہ کر دنیا کی ہرقوم کا دل موہ لیا ۔ آدم سے لے کر عیسیٰ تک آنے والے رسولوں میں سے ایک دو درجن کا نام بھی لیا اور یہ بھی فرمایا دیا کہ ورسلا قد قصصنا ھم علیک من قبل و رسلالم لقصصھم علیک اور کسی کے لیے رنجش کی وجہ نہ رہی اس حیثیت سے بھی آپ رحمتہ العالمین ثابت ہوئے ۔
مذہب سابق میں ایک گورکھ دھندہ بن کر عبادت گاہوں کے افسروں پجاریوں کی اجارہ داری بن گیا تھا ۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ الدین یسر وہ ہر ایک فرد انسانی کا معاملہ ہے اور ایک بنیادی مذہب، ایک خلاصہ اور نچوڑ پیش کیا کہ انسان مہد یا کم از کم سن رشد سے لحد تک اپنے آپ اس کا ذمہ دار ہے ۔ اور وہ مذہب ( اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور عمل صالح کرتا رہے) ( ہرشخص پر اس کی استطاعت کے مطابق ہی ذمہ داری ہے)
یہ سب ایک طرح سے دینوی پہلو تھا ۔ اسلام کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ دنیا و دین دونوں کی بیک وقت بھلائی چاہتا ہے ۔ روحانی ترقی اور تزکیہ نفس کے لیے توحید سے بڑھ کر کوئی وسیلہ تصور میں نہیں آتا ۔ اگر کوئی شخص خڈا کو ایک مان لے اور خیر و شر میں اس کے سوا کسی اور کی قدر نہ سمجھے اور حشر و حساب کو مان لے تو پھر اس دنیا میں گناہ کا سرزد محال نہیں تو مشکل ضرور ہوجات ہے ۔ ہر شخص کے ایمان کی پختگی اس کے اعمال میں ہویدار رہتی ہے ۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ ایسے احکام ہیں جن سے انسان فرشتوں سے بھی سبقت لے جاتا ہے ۔ جس میں عدول حکمی کی صلاحیت ہی نہ ہو ( مثلاً فرشتہ) اور وہ کسی گل کی طرح بے اختیار حرکت کرتا چلا جائے، تو نہ وہ ثواب کا مسحق اور نہ عذاب کا مستوجب ۔ جس میں خیرو شر کی بہ یک وقت قدرت ہو اور وہ اپنی قوتِ ارادی و اختیار سے کام لے کر صرف خیر پر عمل کرے تو یقینا اشرف المخلوقات کہلانے کا اسی کو حق ہوسکتا ہے ۔
یہی چیزیں نتیجہ ہیں سیرت پاک کے مطالعے کا، اور یہی چیزیں ہیں جو سیرت پاک کے مطالعے دعوت دیتی ہیں ۔ (جاری ہے)