پی ٹی آئی حکومت نے سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کیخلاف لاہور ہائی کورٹ میں شواہد پیش کرنے میں ناکامی کے بعد منشیات برآمدگی کیس کو لٹکا کر انہیں مزید جیل میں رکھنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ کیخلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت کے دوران جج نے واٹس ایپ پر احکامات موصول ہونے پر کیس کی مزید سماعت سے انکار کر دیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، نائب صدر مریم نواز، پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز سلمان شہباز اور سابق صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ کیخلاف کیسز کی سماعت کرنے والے ججز کی خدمات واپس لے لیں۔
انسدادِ منشیات عدالت میں رانا ثنا اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ کی مدت ختم ہونے اور ضمانت کے حوالے سے سماعت میں ان کے وکیل ہی دلائل دے سکے تھے۔
دریں اثنا انسداد منشیات فورس (اے این ایف) کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ میری گزشتہ رات ہی تقرری ہوئی ہے، چنانچہ کیس کو پڑھنے کیلئے مجھے کچھ وقت دیا جائے۔ جس کے باعث عدالت نے ایک گھنٹے بعد وکیل کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ دے دیا تھا۔
تاہم سماعت کے دوبارہ آغاز پر جج مسعود ارشد نے کمرہ عدالت میں بتایا کہ انہیں ابھی واٹس ایپ میسج موصول ہوا ہے اور ہائی کورٹ نے مجھے کام کرنے سے روک دیا ہے جبکہ خدمات بھی واپس کر دی گئی ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ وہ رہنما مسلم لیگ (ن) کیخلاف کیس کی مزید سماعت نہیں کرسکتے، ان کا کہنا تھا کہ رانا ثناء اللہ یا کسی کا بھی کیس ہوتا میرٹ پر فیصلہ ہونا تھا۔
جس پر رانا ثناء اللہ کے وکیل فرہاد علی شاہ نے ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں نظر آ گیا ہے کہ اے این ایف کا کیس کتنا مضبوط ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں پتا چل گیا تھا کہ سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کیوں دیا گیا۔
جس پر جج مسعود ارشد نے کہا کہ میں اللہ کو جواب دہ ہوں اور اللہ کی رضا کیلئے کام کیا ہے۔
جج کی جانب سے مزید سماعت سے انکار پر ردِ عمل دیتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ آج انصاف کا جنازہ نکل گیا اور یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ حکومت، اپوزیشن کے خلاف مرضی کے ججز چاہتی ہے۔
فرہاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر نے کہا کہ ہمارے پاس گرفتاری کی ویڈیو ہے چالان آ گیا لیکن ویڈیو نہیں آئی جبکہ اے این ایف کا موقف ہے کہ ہمیں تھانے جا کہ پتا چلا کہ سوٹ کیس میں ہیروئن ہے۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ رانا ثناء اللہ کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی ہے، بلڈ پریشر بھی نارمل نہیں ہے اور جو شخص بیمار ہو اسے ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا تھا کہ رانا ثنا اللہ کو ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے، ان کی زندگی کو تحفظ دینا عدالت کی ذمہ داری ہے۔
بعد ازاں سماعت میں وفقہ دیا گیا جس کے بعد جج نے مزید سماعت سے انکار کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 7 ستمبر تک توسیع کردی تھی۔
پیشی کے دوران لیگی رہنما رانا ثناء اللہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کے حیلے بہانے ان کا عزم متذلذل نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے لیڈر میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ہوں اور جمہوریت کے ساتھ ہوں۔ میں کوئی ڈیل نہیں کروں گا۔ یہ چاہے جو بھی کرلیں۔
ہائی کورٹ رجسٹرار کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق جن ججز کی خدمات واپس لیں ان میں احتساب عدالت کے ججز مشتاق الہٰی اور محمد نعیم ارشد جبکہ انسداد منشیات عدالت کے جج مسعود ارشد شامل ہیں۔
واضح رہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد نعیم ارشد شہباز شریف کے خلاف رمضان شوگر ملز، مریم نواز کے خلاف چوہدری شوگر ملز، حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ اور رمضان شوگر ملز، سلمان شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیسز کی سماعت کر رہے تھے جبکہ مسعود ارشد رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کے کیس کی سماعت کر رہے تھے۔