اس سے مراد کہ رمضان میں روزہ دار بھوک و پیاس کی شدت محسوس کرتا ہے اسی مناسبت سے اس ماہ کو رمضان کہا جاتا ہے۔
قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یاایھا الذین امنو کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔ (اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار بن جائو)
اسی سورہ البقرہ میں ارشاد ربانی ہے "شھر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس و بینت من الھدی والفرقان (ج) فمن شھد منکم الشھر فلصمہ" (رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، ، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے)
رمضان المبارک کے حوالے سے صحیح مسلم کی حدیث قدسی یوں ہے: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابن آدم نے ہر عمل اپنے لئے کیا سوائے روزوں کے کہ وہ میرے لئے ہے اور میں اس کا بدلہ دوں گا تو قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے"۔
رمضان المبارک وہ بابرکت اور عظیم ساعتوں کا ایک ایسا نادر مہینہ ہے جو رب زوالجلال کی طرف سے امت مسلمہ کے لئے نایاب تحفہ ہے۔
ماہ رمضان صبر و برداشت کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ انسان کو صبر، ہمت، برداشت، احساس، جذبہ، الفت، خودداری کی تربیت دے کر اس قابل بناتا ہے کہ سال کے دیگر گیارہ ماہ میں بھی رمضان کی طرح لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور پیار بانٹتے رہیں ۔ اس ماہ کو تین عشروں میں تقسیم کیا گیا جن میں پہلا عشرہ رحمت الہی، دوسرا عشرہ مغفرت الہی اور آخری عشرہ جہنم سے نروان کا ذریعہ ہے۔
اس مہینے کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کی تاکید آئی ہے اور اسی آخری عشرے کی طاق راتوں میں چھپی ہوئی شب قدر کی رات ہے جس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ﴾ (سورة القدر) ’’شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘ ہزار مہینے کے 83 سال 4 مہینے بنتے ہیں ۔ عام طور پر انسانوں کی عمریں بھی اس سے کم ہوتی ہیں۔ لیکن اس امت پر اللہ تعالیٰ کی یہ کتنی مہربانی ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اس امت کو لیلة القدر سے نواز دیتا ہے، جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے 83 سال کی عبادت سے بھی زیادہ اجر و ثواب حاصل کر سکتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جو روزے رکھے اور شب قدر کا اجر و ثواب طلب کرنے کی نیت سے قیام کرے اس کے سارے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ (بخاری و مسلم))روزہ رکھ کر انسان ایک منظم راستے پر گامزن ہوتا ہے،،،، نظم و ضبط اور اوقات کار کا پابند ہوتا ہے۔۔۔۔ ذاتی نظم و ضبط، صبر، برداشت اور خالق کائنات کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے۔
روزہ کا فلسفہ بجانب ربانی انقلاب امام حضرت سیدنا جعفر صادق علیہ السلام اس طرح فرماتے ہیں:
((انّما فرض اللہ عزّوجلّ الصّیام لیستوی بہ الغنیّ والفقیر و ذٰلک أنّ الغنیّ لم یکن لیجد مسّ الجوع فیرحم الفقیر لأنّ الغنیّ کلّما أراد شیئا قدر علیہ ، فأراد اللہ عزّ وجلّ أن یسّوی بین خلقہ ، و أن یذیق الغنیّ مسّ الجوع والألم لیرقّ علی الضّعیف فیرحم الجائع))
اللہ نے روزے اس لئے فرض قرار دیئے تاکہ غنی وفقیربرابر هو سکیں .اور چونکہ غنی بھوک کا احساس نہیں کرسکتا جب تک کہ غریب پر رحم نہ کرے اس لئے کہ وہ جب کوئی چیز چاہتا هے اسے مل جاتی هے.لہذا اللہ نے یہ ارادہ کیا کہ اپنی مخلوق کے درمیان مساوات برقرار کرے اور وہ اس طرح کہ غنی بھوک و درد کی لذت لے تاکہ اسکے دل میں غریب کے لئے نرمی پیداهو اور بھوکے پر رحم کرے .
نماز کے بعد دوسرا عمل روزہ انفرادی تربیت کر کے اجتماعی انقلاب لانے کے لئے ایک ماہ کی انقلابی ٹریننگ ہوتی ہے جس سے 11 ماہ میں انسان اس ٹریننگ کے باوصف عمل پیرا ہوتا ہے۔ اس بابرکت ماہ میں انسان کا ازلی دشمن شیطان اور اس کی ذریت کو قید کر دیا جاتا ہے تا کہ اللہ کے بندے اپنے رب کی حمد و ثنا آسانی سے کر سکیں۔ روزہ صبر، برداشت، ہمت کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ دوسرے کے لئے احساس اور الفت کی رمق پیدا ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ غریب، یتامیٰ، مساکین اور نادار لوگوں کی مدد ہوتی ہے
ہمارے ہاں اب نماز و روزہ صرف دکھاوے کا رہ گیا ہے۔۔ سیاسی بٹیروں اور بونوں کو بلا کر افطار پارٹیاں کی روایت بنا لی ہوئی ہے جس میں غریب و مساکین لوگوں کے عزت نفس سے کھلواڑ کر ان کے وقار کو مجروح کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ اب افطار پارٹی میں باقاعدہ شادی کی طرح کارڈ تقسیم کیے جاتے ہیں جن میں ایسے لوگ بلائے جاتے ہیں جو روزہ رکھتے ہی نہیں ہیں۔ ایسے لوگ جو خدا کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ افطار پارٹی میں وعظ و نصحیت کے لئے بلائے ہوتے ہیں۔۔۔۔ افطار پارٹی یا افطاری کے وقت لوگوں کے ساتھ پسند و ناپسند کی امتیاز رواں رکھی جاتی ہے۔۔۔ علمائے صاحبان اور عہدہ و مراعات کے حامل لوگوں کے لئے اعلیٰ اور مہنگی ترین ڈشز تیار ہوتی ہیں جب کہ غربا و مساکین کو معمولی سے کھانے پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔
ایک ماہ کے روزے رکھنے کے بعد اللہ نے عید الفطر کا دن مقرر کیا ہے جس میں اللہ ان لوگوں کو انعام دیتا ہے جنہوں ںے احکام خداوندی کے عین مطابق روزے رکھے، قیام، رکوع، و سجود کیے ان سب کو اللہ عید کے دن انعام دیتا ہے وہ انعام دنیا، برزخ و آخرت تینوں میں کامیابی کے لئے ہے اور اس دن اللہ اپنے بندوں کو اس طرح بخش کر گناہوں سے پاک فرما دیتا ہے جیسے وہ اپنے ماں کے پیٹ سے نومولود پیدا ہوا ہو۔