عیدالاضحی کے موقع پرسویڈن میں ایک بدبخت دہریے کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے دلخراش واقعے پر غم و غصے کی شدید لہر نے پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سوئیڈن میں چھ ماہ کے اندر دوسری بار قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کی عالم اسلام ہی نہیں مغربی دنیا میں بھی شدید مذمت کی جارہی ہے جس کی وجہ واضح طور پر اس نفرت انگیز اور متعصبانہ کارروائی کا مذہبی رواداری ، باہمی احترام اور تہذیب و شائستگی کی اعلیٰ انسانی اقدار کے سراسر منافی ہونا ہے۔57مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے علاوہ یورپی یونین نے بھی دنیا کے ڈھائی ارب مسلمانوں اور ہر شائستہ اور مہذب انسان کی دل آزاری پر مبنی اس اشتعال انگیر کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اس معاملے کا نہایت قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہ مذموم فعل سوئیڈن کی ایک عدالت کی باقاعدہ اجازت سے انجام دیا گیا ہے۔ اس واقعے کے تقریباً 200عینی شاہدین کے مطابق اسٹاک ہوم کی مسجد کے باہر دو مظاہرین نے قرآن کے نسخے کو پھاڑ دیا اور مقدس اوراق کی بے حرمتی کرنے کے بعد انہیں نذر آتش کیا۔ واقعے میں ملوث شخص سلوان مومیکا نے ایک امریکی نیوز چینل کو بتایا کہ وہ کسی مذہب کو نہیں مانتا ، وہ یہ مظاہرہ عدالت میں تین ماہ کی قانونی لڑائی کے بعد کر رہا ہے۔
مسجد کے ڈائریکٹر اور امام محمود خلفی کا یہ انکشاف بہت اہم ہے اور اس سے انتظامیہ کی ملی بھگت واضح ہے کہ مسجد انتظامیہ نے پولیس سے درخواست کی کہ وہ کم از کم مظاہرے کو کسی دوسری جگہ منتقل کر دیں جو قانون کے مطابق ممکن ہے لیکن یہ درخواست قبول نہیں کی گئی۔ دنیا کے اربوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے اس وحشیانہ فعل کے معاملے میںانتظامیہ کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پولیس کے اجازت نامے سے واضح ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی کا خطرہ ہوتا تو اجازت نہ دی جاتی گویا اس طرح دنیا بھر کے مسلمانوں کو پرتشدد احتجاج پر اکسایا جارہا ہے تاکہ اس کے بعد ان کے خلاف دہشت گرد ہونے کاپروپیگنڈہ کرنے کا موقع میسر آئے جو مغرب میں قبول اسلام کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کیلئے مغربی پالیسی سازوں کی ضرورت ہے۔فی الحقیقت مغربی ملکوں میں کئی عشروں سے جاری گستاخانہ خاکوں اور دیگر اقدامات کے پیچھے یہی عیارانہ حکمت عملی کارفرما ہے۔پوری مسلم دنیا میں شدید ردعمل کے بعد سوئیڈن کی حکومت نے بھی اس کارروائی کو انفرادی فعل قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے لیکن یہ موقف اس کے عملی رویے سے مطابقت نہیں رکھتا لہٰذا ضروری ہے کہ ایک طرف اوآئی سی کے ممالک مراکش اور اردن کی طرح سوئیڈن سے اپنے سفیر واپس بلائیں اور اس کی درآمدات پر پابندی لگائیں۔
خود سویڈن کی حکومت نے دارالحکومت سٹاک ہوم کی جامع مسجد کے باہر عیدالاضحی کی نماز کے دوران قرآن پاک کے اوراق مقدسہ کو نذر آتش کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے اسلاموفوبیاقرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس توہین آمیز واقعےسے سویڈن کی حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ قرآن پاک یا کسی بھی مقدس کتاب کی توہین، اشتعال انگیزی ، جارحانہ اور گستاخانہ اقدام ہے۔ ایسے واقعات حکومت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے۔ لیکن واقعے کا المناک پہلو یہ ہے کہ مجرم کو اس شر انگیزی کی اجازت ایک عدالت نے دی تھی کیونکہ سویڈش پولیس نے رپورٹ پیش کی تھی کہ ایسے واقعے پر کوئی ردعمل نہیں آئے گا۔ جبکہ زمینی حقائق بدنیتی پرمبنی اس رپورٹ کی نفی کرتے ہیں۔ واقعے کی اطلاع ملنے پر دنیا بھر کے ڈھائی ارب سے زائد مسلمانوں کے دل چھلنی ہو گئے ہیں اور وہ احتجاجی جلسے جلوسوں میں اپنی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ سویڈن سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کر کے اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا جائے اور مجرم کو جو کہتا ہے کہ وہ کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا عبرتناک سزا دلوائی جائے۔ او آئی سی نے مغربی ممالک سے کہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی قوانین کے مطابق آزادی اظہار کا حق استعمال کریں جو کسی مذہب یا اس کے شعائر کی توہین کی اجازت نہیں دیتے۔یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ مغربی ممالک میں زبانی دعوﺅں کے برخلاف اسلاموفوبیا مسلمانوں کیلئے نسل پرستی روزمرہ کا معمول بن گئی ہے۔ صرف جرمنی میں گذشتہ سال 998مسلم مخالف واقعات رونما ہوئے اور 5سو زبانی حملے کئے گئے۔ اسلام، مسلمانوں اور اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کرنے والوں میں جرمن مردوں کے علاوہ عورتیں بھی شامل تھیں۔ اشتعال انگیز بیانات، دھمکیاں اور تشدد معمول بن چکا ہے۔
قرآن پاک کی توہین کے واقعات کی رفتار اور شدت میں اضافہ محسوس کیا جارہا ہے۔ شدت یہ ہے کہ سرکار کی سرپرستی حاصل رہتی ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ دو پہلوﺅں سے کمزور ہے۔ ایک یہ کہ کوئی اجتماعی قدم نہیں اٹھایا جاتا کسی سخت اقدام پر اتفاق ہی نہیں ہوپاتا۔ یہ کام کبھی ترکی کبھی پاکستان کبھی سعودی عرب سے ہوجاتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ کمزوری اور خرابی یہ ہے کہ 57 اسلامی ممالک میں کہیں بھی حکمرانوں نے قرآن کو اپنا اوڑھنا، بچھونا نہیں بنایا ہوا۔ اس کے احکامات کے خلاف کام ہوتے ہیں وہ سود کو منع کرتا ہے ہمارے ملک سودی کاروبار کرتے ہیں وہ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے ہم انگریز کے قانون کو نافذ کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی شریعت کے خلاف کام کرتے ہیں۔ دینی تعلیم کو پیچھے کرتے ہیں اور دنیاوی تعلیم کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ہماری پارلیمنٹ میں فیصلے قرآن و سنت کے منافی ہوتے ہیں۔ ایسے قوانین کی نشاندہی کی جائے تو سیاسی مخالف بھی ایک ہوجاتے ہیں اور اسے مسترد کردیتے ہیں ہر غیر اسلامی کام کے لیے یہ سارے مخالف ایک ہوجاتے ہیں یہ رویہ تو مغرب بھی دیکھ رہا ہے اور مشرق بھی اور مشرق و مغرب کا رب بھی پھر قرآن اور اسلام کے دشمنوں کی ہمت کیوں نہ ہوگی کہ توہین قرآن کریں۔ آگ لگائیں مسلمانوں پر مظالم کریں کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا طرز زندگی اس قرآن کے بالکل برعکس ہے۔ ایسے میں ان پر اسلام اور مسلمانوں کے دھاک کیونکر بیٹھے گی۔او آئی سی نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق آزادی اظہار کا حق استعمال کیا جائے تاہم آخر میں کہا گیا ہے کہ عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے مذاہب ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے افہام و تفہیم اور تعاون کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ آزادی اظہار کے بارے میں ٹھیک کہا گیا ہے لیکن اصل بات مذاہب ثقافتوں اور تہذیبوں کے مابین مکالمے کی نہیں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کی ہے۔ صحیح اور غلط تو مکالمے میں بھی طے نہیں ہوسکے گا۔
جب تک مغرب اسلام کو ایک آسمانی مذہب تسلیم کرنے کا برملا اعلان نہیں کرتا ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ خرابی یہی ہے کہ ہم مکالمے کی بات کررہے ہیں۔ مکالمے کو یہ لوگ تسلیم نہیں کرتے۔ پاکستانی تاجروں نے سویڈن سے تجارت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن کیا اس پر عمل ہوسکے گا کیونکہ اس کام کے لیے حکومتی سرپرستی لازمی ہے گزشتہ دور حکومت میں فرانس میں ایسی حرکت ہوئی تو پاکستانی حکومت نے فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع کیے نہ اس کے سفیر کو ملک بدر کیا پھر کیوں نہ ان کی ہمتیں بڑھیں گی اگر کسی سیاسی رہنما کے ماں باپ کو برا بھلا کہا جائے کسی کی بیوی کا مذاق بنایا جائے تو یہ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں لیکن پوری امت جن پر فدا ہو اس شخصیت کی توہین یا مقدس ترین آسمانی کتاب قرآن کی توہین کی جائے تو ان کے ماتھے پر شکن تک نہیں پڑتی۔ اس کمزوری اور خرابی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا عمل ان مطالبات کے مطابق نہیں جو او آئی سی یا مختلف ممالک کا دفتر خارجہ جاری کررہا ہے اس لیے سویڈش سفارتخانہ وضاحت کررہا ہے کہ قرآن کی بے حرمتی کا واقعہ انفرادی عمل ہے اگر ایسا ہی ہے تو نیوزی لینڈ کی طرح واقعے کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی ممالک او آئی سی کے پلیٹ فارم سے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کریں اور جس ملک میں توہین قرآن یا اسلامو فوبیا کا جرم سرزد ہو اس کے عالمی بائیکاٹ کی قرارداد منظور کروا کے اس پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے حوالے سے مغربی دنیا میں اسلام کے بارے میں جاری گمراہ کن پروپیگنڈے کا اسلام کی اصل تعلیمات کی روشنی میں سدباب کرتے ہوئے پورے عالم انسانی کواس نظام عدل و رحمت سے درست طور پر متعارف کرانے کا بھرپور اہتمام کریں۔