قائد اعظم محمد علی جناح کا بچپن کراچی میں گزرا۔ اس زمانے میں جھرک بھی کراچی کا حصہ تھا۔ لیکن یہ بات ثابت ہے کہ قائد اعظم کا آبائی علاقہ یا گاؤں جھرک ہی تھا۔ قائد اعظم نے ابتدائی تعلیم کراچی کے سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کی۔ جبکہ ان کی رہائش کھارادر کی تاریخی عمارت وزیر مینشن میں تھی۔
قائد اعظم کی کراچی سے محبت کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد کراچی کو ملک کا دارالحکومت بنایا۔ ریاست کے تمام معاملات کراچی سے ہی ڈیل کئے جاتے تھے۔ دھیرے دھیرے کراچی اس درجے سے محروم ہوگیا۔ آج قائد اعظم کا یہ شہر تقریباً اجڑ چکا ہے۔
شہر قائد کراچی کا المیہ یہ ہے کہ اسے لوٹنے والے غیر نہیں، اپنے ہیں۔ نوحہ کون لکھے اور کس کے ہاتھ پر لہو تلاش کیا جائے۔ اس لاوارث شہر کی داستان الم کون سنے۔ جسے اپنے پرائے سب نے لوٹا کھسوٹا اور ویران کر دیا۔ ایک وقت تھا کہ دنیا بھر میں اس کی ایک منفرد پہچان اور تشخص تھا۔
اسے روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد کہا جاتا تھا۔ چمکتی دمکتی، صاف ستھری اور چوڑی سڑکیں دیکھ کر ہر ایک کا جی خوش ہوتا۔ پارکوں اور کھیلوں کے میدانوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ پاکستان ہی نہیں، دنیا کے بعض شہر بھی اس کی سبک رفتار ترقی پر رشک کرتے تھے۔
کراچی مملکت خداداد پاکستان کا پہلا دارالحکومت، تعلیم یافتہ، باشعور اور مہذب لوگوں کا مسکن، پاکستان کا ضمیر اور اپوزیشن کی آواز تھا۔ شاید اسے اسی کی سزا ملی۔ ایوب خان نے ملک پر مسلط ہوتے ہی 1958ء میں دارالحکومت اسلام آباد منتقل کیا۔
عوامی دباؤ کے باعث جنوری 65ء میں آمر جنرل ایوب کو انتخابات کروانے پڑے۔ مادر ملت فاطمہ جناح مقابل آئیں۔ مگر انہیں ہرایا گیا۔ پھر جعلی فتح کے نشے مں سرشار آمر کے بیٹے گوہر ایوب نے لشکر لا کر کراچی کو روند ڈالا۔ لالو کھیت میں ٹرکوں پر فتح کا بڑا جلوس نکالا۔
شہر قائد میں مادر ملت کے چاہنے والے دکھ میں ڈوبے عوام مشتعل ہوئے تو نہتے عوام پر براہ راست فائرنگ کی گئی۔ کچھ مرے، کچھ زخمی ہوئے۔ گھر اور دکانیں جلائی گئیں۔ یہ کراچی کا پہلا لسانی فساد تھا۔ پھر بھٹو کے دور میں کراچی میں زمینوں کی ایسی بندر بانٹ ہوئی کہ بھٹو کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام صادق سے کہنا پڑا کہ مزار قائد نہ بیچ دینا۔
اس کے ساتھ ہی کوٹا سسٹم نافذ کر کے منافرت و عصبیت کی ایک اور فصل بوئی گئی۔ پھر ضیاء الحق کے دور (سن پچاسی) میں کراچی کی مکمل تباہی کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ بشری زیدی نامی طالبہ کی ہلاکت کے بعد بدترین لسانی فسادات ہوئے۔ سو لسانیت کو بنیاد بنا کر مہاجر قومی موومنٹ کو سرکاری سرپرستی عطا کی گئی۔
اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور سابق جسٹس غوث علی شاہ نے ایم کیو ایم کو سیاسی قوت بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ خوفناک سازش کراچی کے شعور اور نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کر گئی۔ شہر قائد کی تہذیب، روایات، وضعداری اور مرکزیت کو زندہ دفن کر دیا گیا۔ تعصب، منافرت، فرقے، لسانیت کو خوب ہوا دی گئی۔
نئی نسل کے ہاتھ میں کتاب کے بجائے ہتھیار تھما کر مستقبل کو بھیانک اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔ گویا اس ہنستے بستے شہر کو ایک عفریت کے حوالے کر دیا گیا۔ جس نے اس شہر میں خون کی ندیاں بہائیں، بوری بند لاشیں اس شہر کی پہچان بن گئیں، بھتا خوری کے لئے فیکٹریوں کو سینکڑوں محنت کشوں سمیت جلا دیا گیا۔
ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی سے شہر قائد دنیا کے ان شہروں میں شمار ہونے لگا، جنہیں دنیا میں ناقابل رہائش قرار دیا جاتا ہے۔ کچرہ، گندگی اور تعفن نے شہریوں کو مریض بنا دیا۔ اس مافیا نے شہر اس کے اسٹرکچر کا بھی حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا۔ بے ہنگم اور بغیر کسی مینجمنٹ کے تعمیر ہونے والی عمارتوں نے اس شہر کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کر دیا۔
سرکاری زمینیں اور پلاٹ چائنا کٹنگ کرکے بیچ دیئے گئے۔ ندی نالوں پر بھی اس مافیا نے قبضہ کرکے تعمیرات کھڑی کردیں۔ یوں نکاسی آب کے قدرتی نالے ہی معدوم ہوگئے یا اتنے تنگ ہوگئے کہ اب معمولی بارش کا پانی بھی اوور فلو کرکے آس پاس کی آبادیوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس بار تو بارشوں نے بھی ریکارڈ توڑ دیا۔
شہر کی سڑکیں پہلے ہی تباہ حال تھیں، جولائی و اگست میں ہونے والی مسلسل بارشوں سے بالکل ہی کھنڈر بن چکی ہیں۔ سندھ حکومت کراچی سے بھرپور ریونیو حاصل کرنے کے باوجود اس کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں۔ شنید ہے کہ سڑکوں کی مرمت کیلئے بڑے بجٹ سے مرمت اور نئے سڑکوں کی تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔
تحریک انصاف نے اہل کراچی کو سبز باغ دکھا کر یہاں سے کئی سیٹیں حاصل کیں، مگر اس نے بھی کراچی کے ساتھ کیا گیا اپنا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے تو اس شہر کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک برسوں سے جاری رکھا ہوا ہے۔ ایسے میں قائد اعظم محمد علی جناح کے اس اجڑے شہر کیلئے بس دعا ہی کی جاسکتی ہے۔