عرب کے قدیم باشندے عرب سے نکل کر شام، مصر اور بابل کی طرف بڑھے اور وہاں پر طاقتور حکومتوں کی بنیاد ڈالی، انہوں نے ان علاقوں پر 1500 برس تک حکومت کی۔ قرآن کریم میں ان کو عاد اولیٰ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ گویا عرب کی قدیم قوم سام اور عاد اولیٰ ایک ہی قوم کے دو نام ہیں۔
بنیادی طور پر عاد ایک شخص کا نام ہے، جو بعض روایات میں حضرت نوح علیہ السلام کی چوتھی پشت اور بعض روایات میں پانچویں نسل سے ہے۔ اور ان کے بیٹے سام کی اولاد میں سے ہے، پھر اس شخص کی اولاد اور اس کی طرف سے منسوب ہونے والی پوری قوم کو عاد کہا گیا۔
یہ دنیا کے سب سے قد آور اور زور آور انسان تھے۔ ان کی طاقت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہاتھ سے ہی درخت کو جڑ سے اکھاڑ دیتے تھے۔ کبھی بوڑھے نہیں ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: ’’ان جیسی (کوئی قوم) اور مُلکوں میں پیدا نہیں کی گئی۔‘‘
قوم عاد کا زمانہ دو ہزار سال قبل مسیح مانا جاتا ہے، جبکہ اس کا وجود پہلی صدی عیسوی تک رہا۔ ان کو ہزار ستونوں والے شہر کی قوم بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا مرکز ’’حضر موت‘‘ کا علاقہ تھا۔ یہ لوگ مذہبی طور پر بُت پرست تھے۔
بعض روایات میں ہے کہ وہ بلند ستونوں والے خیموں میں رہتے تھے، جبکہ کچھ مفسرین کا استدلال ہے کہ انہوں نے پہاڑوں کو کاٹ کر عالیشان محل بنائے ہوئے تھے، اس فن کاری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
قوم عاد کی زمینیں سرسبز و شاداب تھیں اور باغات سے بھری ہوئی تھیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی معاشی حالت تو بہت عمدہ تھی، لیکن جہالت، فریب کاری اور بے حیائی نے معاشرتی طور پر کھوکھلا کردیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح اور سچّے دین کی طرف لوٹنے کیلئے حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ اعراف میں فرماتا ہے: ‘‘اور ہم نے عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا کہ میری قوم! خدا ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تم (شرک کرکے خدا پر) محض بہتان باندھتے ہو۔“
مگر انہوں نے خدا کے پیغمبر کو جھٹلا دیا اور ہدایت قبول کرنے سے انکار کردیا، جس پر اللہ نے ان پر عذاب نازل کیا۔ ایک ہفتے تک تند اور تیز ہوا کے طوفان اٹھے اور عاد اور ان کی آبادیاں تہہ و بالا ہو کر رہ گئیں۔
سات دن تک جاری ریت کے طوفان میں سب لوگ ہلاک ہوگئے، صرف حضرت ہود اور ان کے چند اصحاب جنہوں نے امن کی جگہ پناہ لی تھی بچ گئے۔ اس واقعے کے بعد حضرت ہود حضرِ موت چلے گئے اور اپنی وہاں باقی عمر گزاری۔