کراچی/ اسلام آباد: بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن کی وجہ بننے والی پُراسرار فنی خرابی کا پتا لگانے میں وفاقی حکومت اب تک ناکام ہے۔ ہفتے کی شب 11 بج کر 41 منٹ پر ہونے والے بلیک آؤٹ پر اس وقت بھی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ واضح رہے کہ تین برس میں یہ دوسرا بڑا پاور بریک ڈاؤن تھا۔
نامعلوم فنی خرابی نے کراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت کئی علاقوں اور شہروں کو پوری رات اندھیرے میں رکھا۔ جبکہ صبح اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر وزرا نے عوام کو پہنچنے والی تکلیف پر معافی بھی طلب نہیں کی۔
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ملک میں بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن سے متعلق کہا ہے کہ رات 11 بجکر 41 منٹ پر گدو کے پلانٹس میں خرابی آئی جس کی وجہ سے فریکوئنسی نیچے آئی اور بریکر بند ہوگئے۔ تاہم مختلف علاقوں میں بحالی کا کام جاری ہے اور سسٹم کے واپس آن لائن آنے میں ابھی مزید چند گھنٹے لگیں گے۔
شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وزیر توانائی عمر ایوب نے بجلی غائب ہونے کی ساری تفصیل کہہ سنائی، لیکن یہ نہیں باتایا کہ بریک ڈاؤن کیسے ہوا۔ عمر ایوب کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمیں وجوہات کا علم نہیں۔ واضح رہے کہ یہ پریس کانفرنس صبح کے وقت ہوئی تھی۔ تاہم حکومت اب تک فنی خرابی کی وجوہات کا پتا نہیں لگا سکی ہے۔
مذکورہ پریس کانفرنس میں عمر ایوب نے بتایا کہ 11 بجکر 41 منٹ پر گدو کے پاور پلانٹس پر خرابی آئی اور ایک سیکنڈ میں فریکوئنسی جو 49.5 ہرڈز ہوتی ہے وہ نیچے آگئی اور یکے بعد پاور پلانٹس کے سیفٹی نظام نے شٹ ڈاؤن ہونا شروع کردیا۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک، اوپر، شمال، جنوب میں یہ سسٹم میں گیا اور پورے ملک جہاں ہمارے پاور پلانٹس چل رہے تھے، 10 ہزار 302 میگا واٹ ایک دم سے سسٹم سے آؤٹ ہوگئے۔
وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ اس کے فوری بعد میں نیشنل پاور کنٹرول سینٹر پہنچا اور میڈیا اور قوم کو اعتماد میں لیا، تربیلا کو ہم نے 2 مرتبہ شروع کیا اور وہ سنک ہوگیا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اس وقت اسلام آباد، راولپنڈی، آئیکسو کا نظام، لاہور الیکٹرک کے علاقے، فیصل آباد کے آدھے شہر میں بجلی آچکی تھی جبکہ کراچی الیکٹرک کو تقریباً 400 میگا واٹ سپلائی ہوچکی ہے تاہم سسٹم کے واپس مکمل آن لائن آنے میں ابھی مزید چند گھنٹے لگیں گے۔
عمر ایوب نے کہا کہ اس وقت ہمیں وجوہات کا علم نہیں، رات میں بھی ہم نے ٹیمیں بھیجی تھیں لیکن دھند کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا جبکہ صبح بھی ہماری ٹیمز سے بات ہوئی تاہم 500 کے وی کی لائن میں فالٹ نظر نہیں آیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے دھند کم ہوگی تو تحقیقات ہوں گی کہ یہ فالٹ کہاں آیا۔