احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو کو جھوٹا قرار دینے والی پی ٹی آئی حکومت اس کی فارنسک جانچ سے بھاگنے لگی۔ مسلم لیگ (ن) جج کے اعترافی بیان کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بے گناہی کا واضح ثبوت قرار دیتی ہے، جس پر پی ٹی آئی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔
واضح رہے کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو 6 جولائی کو شہباز شریف اور مریم نواز ایک پریس کانفرنس کے دوران منظر عام پر لائے تھے۔ جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ارشد ملک اعتراف کر رہے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف کو غلط سزا سنائی اور یہ کہ انہوں نے فیصلہ دباؤ میں دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس کے بعد حکومتی ترجمانوں نے بھی جوابی پریس کانفرنسیں کیں اور ویڈیو کو تحقیقات کے بغیر ہی جھوٹا قرار دے دیا۔ ایک حکومتی معاون نے دعویٰ کیا کہ وہ ویڈیو کی فارنسک جانچ کرائیں گے اور اسے غلط ثابت کریں گے۔ تاہم 45 روز گزرنے کے باوجود ویڈیو کا فارنسک نہیں کرایا جا سکا اور اب تحقیقات سے بچنے کیلئے مختلف حیلے بہانے کئے جا رہے ہیں۔
ویڈیو اسکینڈل کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل جنرل انور منصور خان نے کہا کہ اس ویڈیو کو اصل ثابت کرنا بہت مشکل کام ہوگا، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ قابل اعتراض ویڈیو پرتو جج نے بھی اعتراف کیا ہے لیکن جو پریس کانفرنس میں دکھائی وہ اصل ثابت کیسے ہوگی؟ ویڈیو معاملہ ماہرین سے کلیئر کرائیں کہ فارنسک ہوسکتا ہے یا نہیں، رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ آڈیو رکارڈنگ الگ کی گئی، پریس کانفرنس کے دوران ویڈیو کا سب ٹائٹل بھی چل رہا تھا، لگتا ہے ویڈیو کے ساتھ کسی نے کھیلا ہے۔
ادھر نجی ٹی وی کے رپورٹر عبد القیوم صدیقی کے مطابق اٹارنی نے کہا کہ جج ارشد ملک کی ملتان والی ویڈیو کا فارنسک ہوچکا ہے اور وہ اصل ہے۔ اس پر عدالت نے تحفظات کا اظہار کیا کہ پھر جج کو وفاقی حکومت نے اتنے عرصے سے اپنے پاس کیوں رکھا ہوا ہے۔ وہ اس کو لاہور ہائیکورٹ میں کیوں نہیں بھیجتے تاکہ انکوائری ہو۔ ایسے جج کی وجہ سے ایماندار ججوں کے سر شرم سے جُھک گئے ہیں۔
ویڈیو سے متعلق بھی عدالت نے تشویش ظاہر کی کہ ارشد ملک کی ویڈیو کا اصل ذریعہ ان کے پاس نہیں ہے۔ مریم نواز بھی کہتی ہیں کہ ان کے پاس باقی چیزیں نہیں ہیں، بلکہ وہ ناصر بٹ کے پاس ہیں۔ لہٰذا اب جبکہ کوئی ویڈیو کی ذمہ داری نہیں لے رہا تو اس کیس کو آگے کیسے بڑھایا جائے گا۔
احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ نوازشریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کے لیے ویڈیو فائدہ مند تب ہوگی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل انور منصور خان اور ڈی جی ایف آئی اے عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ تحقیقات مکمل کرنے کیلئے 3 ہفتے کا وقت دیا گیا تھا، اس رپورٹ میں 2 ویڈیوز کا معاملہ تھا، ایک ویڈیو وہ تھی جس کے ذریعے جج کو بلیک میل کیا گیا اور دوسری ویڈیو وہ تھی جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی۔ اب کیس کی سماعت مکمل ہوگئی اور دو تین دن میں ہم اس معاملے پر فیصلہ دیں گے۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ ایک ایسا کیس جو خود سپریم کورٹ کی نگرانی میں چلا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ جج کے ٹرانسفر کے ساتھ ہی نواز شریف کا ٹرائل ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ کیونکہ جج ارشد ملک نے خود اعتراف کیا ہے کہ اس نے نواز شریف کیخلاف فیصلہ دباؤ میں دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نظام میں بے قاعدگی کے سبب نواز شریف کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔ بے گناہ سزا دی گئی ہے۔ انہیں جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اب عدلیہ کو از خود نوٹس لے کسی درخواست کا انتظار نہ کرے۔ جب جج کو ٹرانسفر کر دیا ان کے عمل پر خود سوالیہ نشان لگا دیئے۔ تو نواز شریف کا جیل میں رہنا ہمارے نظام عدل کے اوپر قرض ہے۔
انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جواب دینا ہوگا کہ جب ایک منصف اپنا کردار درست نہیں ادا کر پایا۔ میں اس بات کو ماننے کو تیار نہیں کہ حکومت نے اپنے ذرائع سے اس کی فارنسک جانچ نہیں کرائی ہو۔ اس میں چند گھنٹے لگتے ہیں اور اگر حکومت اس بات کا اعتراف نہیں کر رہی تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کو تصدیق ہو چکی ہے کہ یہ ویڈیو مستند ہے۔