عام لوگ اتحاد کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہ الدین نے پی ٹی آئی حکومت کو جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی فضا دیکھیں تو بار بار یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے یہاں ملک دوستوں کی حکومتیں رہی ہیں۔ کیا حکمرانوں کو ملکی مفادات عزیز ہیں۔ کسے معلوم نہیں کہ ملکی گندم کا ایک خطیر حصہ افغانستان، بھارت اور ایران اسمگل ہوتا ہے۔ اس مرتبہ شمالی علاقہ جات بشمول پنجاب میں بارشوں کے سبب گندم کی کھڑی فصلوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔
بھارت میں تو فصل کٹائی کی تکنیک میں ہیلی کاپٹرز کو بھی شامل کرلیا ہے اور جیسے ہی فصلیں خصوصاً گندم کی فصل پک کر تیار ہوتی ہے، ہیلی کاپٹرز بھیج کر فصلیں فوراً کاٹ لی جاتی ہیں کہ اگر بے وقت بارش ہو بھی جائے تو کوئی فرق نہ پڑے۔ تاہم ہمارے یہاں ایسا کوئی مکینزم نہیں۔
گندم کی فصلوں کو نقصان سے ملک میں غذائی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں وسائل کمزور پڑ جائیں گے۔ ایسے میں سرکاری پروکیومنٹ تیز، نجی خریداری پر پا بندی، اسمگلنگ اور زخیرہ اندوزی ختم ہونی چاہیئے تھی۔ مگر ہماری عوام دوست حکومت کو پہلا خیال یہ آیا کہ گوادر کی بندرگاہ کو محض اس لئے آپریشنل بنایا جائے تاکہ افغانستان کی غذائی ضروریات میں کسی قسم کی قدغن نہ پڑے۔ لہٰذا حکومت پاکستان نے منگل کے روز، گوادر کی بندرگاہ سے اگلے ماہ کم از کم 5 لاکھ ٹن گندم افغان ٹرانزٹ معاہدے کے تحت افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ اور گوادر سے افغانستان کی دیگر غذائی ضروریات بھی پوری کی جائیں گی۔
اب گوادر کی بندرگاہ نا صرف وسط ایشیا بلکہ چین اور روس تک کیلئے تھی، لیکن ہم نے اس کو محدود بھی کیا تو صرف افغانستان تک۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے مفادات اور ملکی ذمہ داریاں اس قدر کم تر ہیں کہ وہ موجودہ حکومت سمیت کی کسی کی ترجیحات میں آتی ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے بقول G20 ممالک نے کورونا کے سبب قرضوں کی ادائیگی کے سلسلے میں اس سال 12 ارب ڈالر کا ریلیف دیا ہے۔ اس میں ہمیں یہ بھی پتا نہیں ہے کہ جس دورانیے میں یہ ادائیگیاں موقوف رہیں گی اس دورانیے میں کیا ہمارے سود دینے کی ذمہ داریاں بھی منجمد ہوجائیں گی یا نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ سہولت G20 ملکوں نے تقریباً پاکستان سمیت 76 ممالک کو دی ہے۔ لیکن ہم نے تو اس سلسلے میں کوئی درخواست تک واگزار نہیں کی۔ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ اس اثنا میں اس سود کا کیا ہوگا، جو ٹیکسی کے میٹر کے جیسے چلتا ہے، رُکتا ہی نہیں۔
موجودہ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیئں۔ ایک طرف مالی مشکلات تو دوسری طرف کورونا کی تباہ کاریاں ہیں۔ اگر یہی حرکات رہیں تو مجھے خود جمہوریت خطرے میں نظر آرہی ہے۔